اترکاشی آفت: 135 افراد کو بچایا گیا، 9 فوجیوں سمیت 19 لاپتہ؛ معاملہ پارلیمنٹ میں گونجا

اتراکھنڈ کے اترکاشی میں بادل پھٹنے کے بعد 9 فوجیوں سمیت 19 افراد لاپتہ، 135 کو ریسکیو کیا گیا۔ واقعے پر پارلیمنٹ میں تشویش، اپوزیشن نے حکومت سے مؤثر اقدامات کا مطالبہ کیا

<div class="paragraphs"><p>اترکاشی میں آفت کے بعد راحت رسانی کا منظر / آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

اترکاشی: اتراکھنڈ کے ضلع اترکاشی کے دھرالی اور ہرشل علاقوں میں بادل پھٹنے کے بعد پیدا ہونے والی شدید آفت میں اب تک 135 افراد کو محفوظ نکالا جا چکا ہے، جبکہ 9 فوجی اہلکاروں سمیت 19 افراد اب بھی لاپتہ ہیں۔ واقعے کے بعد ریاستی اور مرکزی سطح پر تشویش پائی جا رہی ہے اور پارلیمنٹ میں بھی اس مسئلے کو زور و شور سے اٹھایا گیا۔

اترکاشی پولیس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ بادل پھٹنے کے نتیجے میں 8 مقامی شہری، 2 نیپالی نژاد افراد اور 9 فوجی اہلکار لاپتہ ہیں۔ امدادی ٹیموں نے ایک مقامی شخص کی لاش برآمد کر لی ہے، جبکہ باقی افراد کی تلاش تیزی سے جاری ہے۔

پولیس کے مطابق اب تک 135 افراد کو کامیابی سے ریسکیو کر لیا گیا ہے، جن میں سے 100 افراد کو دھرالی علاقے سے (گنگوتری کی طرف) اور 35 افراد کو ہرشل آرمی گیٹ کے نیچے سے نکالا گیا۔

حادثے کے فوری بعد پولیس، فوج آئی ٹی بی پی، این ڈی آر ایف، ایس ڈی آر ایف، فائر بریگیڈ اور دیگر محکموں نے مشترکہ ریسکیو آپریشن شروع کیا۔ مقامی افراد کی مدد سے ایک عارضی پل بھی تعمیر کیا گیا ہے تاکہ متاثرہ علاقوں میں رسائی آسان ہو سکے۔ کئی قومی شاہراہیں اب بھی بند ہیں، جس سے امدادی کاموں میں دقت پیش آ رہی ہے۔


گنگنانی کے قریب سڑکوں کے بند ہونے کے باعث ضلع مجسٹریٹ پرشانت آریہ اور ایس پی سرتا ڈوبال نے ہیلی پیڈ سے متاثرہ علاقوں کا فضائی معائنہ کیا۔ دونوں افسران موقع پر ہی موجود رہ کر ریسکیو ٹیموں کو ہدایات دے رہے ہیں۔

آئی ٹی بی پی کے ترجمان کمليش كمل کے مطابق، ’’ہماری وہاں دو بٹالین تعینات ہیں، جن کے 130 اہلکار پہلے سے موجود ہیں، جبکہ مزید 100 اہلکار روانہ کیے گئے ہیں۔ ہم نے آج ایک لاش نکالی ہے اور 100 سے زائد افراد کو ریسکیو کیا ہے۔ ہماری ٹیمیں مکمل تندہی سے کام کر رہی ہیں، اور جلد ہی بہتر خبریں آئیں گی۔‘‘

پارلیمنٹ میں گونجا اترکاشی کا معاملہ

اس قدرتی آفت پر پارلیمنٹ کے مانسون اجلاس میں بھی بحث ہوئی۔ حکمران جماعت اور اپوزیشن دونوں نے واقعے پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور ماحولیاتی تحفظ، ریاستی تیاری اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے مؤثر حکمت عملی کی ضرورت پر زور دیا۔ ی جے پی کے سنجے جیسوال نے کہا، ’’یہ واقعہ افسوسناک ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمیں قدرت کو قابو میں لانے کے بجائے ماحول کی حفاظت پر زور دینا ہوگا، ورنہ ایسی تباہیاں بڑھتی جائیں گی۔‘‘


کانگریس رہنما پرینکا گاندھی وڈرا نے مطالبہ کیا کہ حکومت فوری طور پر مستقبل کی آفات سے نمٹنے کے لیے ایک جامع منصوبہ تیار کرے، تاکہ ہر سال کی ہلاکتوں اور نقصانات کو روکا جا سکے۔

راجیہ سبھا رکن رنجیت رنجن نے واقعے کو ’انسانی غلطی‘ قرار دیا اور سوال اٹھایا کہ دھرالی جیسے انتہائی حساس علاقے، جہاں بھاگیرتی اور کھیر گنگا کا سنگم ہے، وہاں کنکریٹ کا تعمیراتی عمل کیوں جاری ہے؟ انہوں نے کہا کہ ماہرین ماحولیات بار بار خبردار کر چکے ہیں، مگر حکومت نے سنجیدگی نہیں دکھائی۔

راجیو شکلا نے مطالبہ کیا کہ مرکز کو ہماچل پردیش اور اتراکھنڈ جیسے پہاڑی ریاستوں کے لیے ہر سال آنے والی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے خصوصی پیکیج دینا چاہیے تاکہ انفراسٹرکچر اور بچاؤ کے انتظامات کو مستحکم بنایا جا سکے۔

سماج وادی پارٹی کے رکن ویرندر سنگھ نے الزام لگایا کہ حکومت متاثرین کے لیے نہ تو رہائش، نہ دوائیاں اور نہ ہی مستقل بازآبادکاری فراہم کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ارکان پارلیمنٹ ایسے موضوعات اٹھاتے ہیں تو انہیں نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور حکومت مذہبی ایشوز میں الجھی رہتی ہے۔