اتراکھنڈ: ’مسلمان یہاں آئیں استقبال ہے، گھومیں پھریں مگر یہاں بسیں نہیں!‘...گراؤنڈ رپورٹ

منیش نے کہا، ہلدوانی میں ریلوے کے خلاف مسلمانوں کے احتجاج نے بھی ہندوؤں کو جگانے کا کام کیا ہے، مسلمان متحد ہو کر آبادی میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں اور مقامی لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو رہا ہے

<div class="paragraphs"><p>تصویر آس محمد کیف</p></div>

تصویر آس محمد کیف

user

آس محمد کیف

دہرادون اتراکھنڈ کی راجدھانی ہے اور دہرادون کا سب سے مشہور اور مصروف بازار پلٹن بازار ہے۔ اس پلٹن بازار میں سیکڑوں دکانوں کو زعفرانی رنگ دیا گیا ہے۔ تمام دکانوں کے سائن بورڈز اب زعفران زدہ ہیں۔ میونسپل کارپوریشن نے دسمبر میں ایسا کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور کانگریس لیڈروں نے اس پر اعتراض کیا تھا۔ فی الحال تمام دکانوں پر بھگوا بورڈ لگا دیے گئے ہیں۔ یہاں ایک دکان چلانے والے ونود کمار کا کہنا ہے کہ تاجر کا مذہب صرف کاروبار ہے اور گاہک ہمارا دیوتا ہے، اس پر سیاست کرنا صحیح نہیں ہے۔ ہمیں اس سے دور رکھا جائے، تمام رنگ خدا کے ہیں، رنگوں کی سیاست درست نہیں۔ بیس میٹر آگے چلنے کے بعد رمیش کماوت کہتے ہیں کہ یہ رنگ شیروں کا رنگ ہے، میونسپل کارپوریشن نے اچھا فیصلہ کیا ہے۔ پورا ملک اسی طرح زعفران بنا دیا جانا چاہئے۔ اسی بازار میں درزی کی دکان چلانے والے ارشاد علی کہتے ہیں کہ رنگ بدلنے سے ہماری صلاحیتوں پر کوئی فرق نہیں پڑا، ہم تو اپنا کام کر رہے ہیں۔ ہاں نیت ضرور سمجھ میں آتی ہے۔ نام بدلنا یا رنگ بدلنا نیت کا نتیجہ ہے، ایک طبقہ کے تئیں نفرت کو ظاہر کرنا ہے۔

سہارنپور کے رہنے والے محمد توصیف نے زندگی بھر آمدنی سے یہاں ایک نان ویج چکن ریسٹورنٹ بنایا ہے، جس میں بھاری نقصان اٹھانے کے بعد وہ یہاں سے لوٹ گئے ہیں۔ توصیف (42) کا کہنا ہے کہ بی جے پی کا ایک ایم ایل اے میرے ریسٹورنٹ کے پیچھے لگ گیا، یہاں کچھ اور چکن ریستوراں بھی تھے لیکن مجھے نشانہ بنایا گیا۔ مجھے کئی بار جگہ بدلنی پڑی، مار پیٹ اور توڑ پھوڑ بھی کی گئی، جس کے بعد میں نے تنگ آ کر میں نے وہاں سے لوٹ جانے کا فیصلہ کیا۔ توصیف اب سہارنپور میں ہیں اور لاکھوں کا نقصان برداشت کر چکے ہیں۔ سہارنپور کے چھیپیان محلہ کے محمد ندیم (29) اترکاشی کے پرولا سے واپس لوٹا ہے۔ ندیم وہاں حجام کی دکان پر بال کاٹتا تھا۔ ندیم بتاتا ہے کہ وہ 2 ماہ قبل واپس آیا تھا، تب تک یہ واقعہ پیش نہیں آیا تھا لیکن مقامی لوگوں میں یہ تبدیلی واضح طور پر نظر آ رہی تھی۔ یہاں بیشتر حجام، دھوبی، درزی مسلمان ہیں اور پرولا میں ان کی اپنی دکانیں اور گھر بھی ہیں، بس اسی بات سے کچھ لوگ ناراض ہو گئے۔


<div class="paragraphs"><p>تصویر آس محمد کیف</p></div>

تصویر آس محمد کیف

سہارنپور یوپی کا ایسا شہر ہے جو اتراکھنڈ کے سب سے قریب ہے، یہاں کے ہزاروں لوگ روزانہ اتراکھنڈ کے تمام مقامات سے رابطے میں رہتے ہیں اور یہ روابط کاروباری نوعت کے ہیں۔ دہرادون اور ہریدوار دونوں اضلاع سہارنپور کی سرحدوں سے جڑے ہوئے ہیں۔ سہارنپور ضلع میں تقریباً 7 لاکھ مسلم آبادی ہے، ہریدوار کبھی سہارنپور کی تحصیل ہوا کرتا تھا، ہریدوار کے دو قصبے روڑکی اور جوالاپور بھی مسلم اکثریتی ہیں۔ سہارنپور سے چکروتا، اترکاشی، مسوری، وکاس نگر جیسے مقامات پر لوگوں کی نقل و حرکت کافی بڑھ گئی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر دورے کاروباری وجوہات کی بناء پر ہوتے ہیں جب کہ ہزاروں سیاح بھی آتے ہیں۔ ادھم سنگھ نگر اور کاشی پور کا بھی یہی کردار ہے جو ایک اور مسلم اکثریتی ضلع مراد آباد کے قریب ہیں۔ اگر آپ جغرافیائی صورت حال کو سمجھیں تو میدانی اور پہاڑی علاقوں میں اتراکھنڈ کو سمجھا جا سکتا ہے، میدانی علاقوں میں اتراکھنڈ کی سرحدیں یوپی کے سہارنپور، بجنور اور مراد آباد کی سرحدوں سے ملتی ہیں، یہ تینوں مسلم اکثریتی اضلاع ہیں۔

کاشی پور کے سریش راوت کا کہنا ہے کہ مرادآباد اور رام پور کے ہزاروں لوگ رام نگر اور بھوالی میں آباد ہو گئے ہیں۔ وہ بھوالی میں فلیٹ بیچ رہے ہیں، رام نگر اور ہلدوانی میں ان کی آبادی بڑھ رہی ہے۔ نینی تال میں گرمی کے موسم میں مسلم طبقہ کے لوگوں کی زیادہ تعداد نظر آتی ہے۔ ہلدوانی کے ہی منیش سنگھ کا کہنا ہے کہ ماضی میں ہلدوانی میں ریلوے کے خلاف مسلمانوں کے بڑے احتجاج نے بھی ہندوؤں کو جگانے کا کام کیا ہے۔ مسلمان متحد ہو کر آبادی میں مسلسل اضافہ کر رہے ہیں۔ اس سے مقامی لوگوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہو رہا ہے، حالانکہ ہمارے آس پاس کے علاقوں جیسے کاشی پور، ادھم سنگھ نگر میں یہ بہت کم ہے، جہاں سکھوں کی بڑی آبادی ہے۔ ردرپور میں نفرت کا معاملہ ضرور اپنے عروج پر ہے، کئی بار فرقہ وارانہ کشیدگی بھی ہوئی ہے۔ دراصل بات یہ ہے کہ اتراکھنڈ کا آدمی یہ چاہتا ہے کہ مسلمان یہاں آئیں، ان کا استقبال ہے، گھوم پھر کر واپس چلے جائیں، یہاں آباد نہ ہوں! جب وہ یہاں رہتے ہیں تو سیاست انہیں عدم تحفظ کے احساس سے بھر دیتی ہے۔


یہ مسئلہ پہاڑی علاقوں میں اور بھی سنگین ہے، جہاں ہاکروں پر شکنجہ کسا جا رہا ہے۔ 20 سال سے اتراکھنڈ میں فیری کرنے والے محمد یونس کا کہنا ہے کہ وہ مظفر نگر کا رہنے والا ہے اور اب اتراکھنڈ حکومت نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اپنی مقامی اتھارٹی کے جاری کردہ کریکٹر سرٹیفکیٹ کے بغیر اتراکھنڈ میں فیری نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی ہاکر کردار کی سند کے بغیر ؎پکڑا جاتا ہے تو اسے 10000 روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا، چاہے اس کے پاس آدھار کارڈ یا شناختی کارڈ موجود ہو! اس کے علاوہ اگر کوئی اسے کرائے پر مکان دیتا ہے تو اسے بھی 20 ہزار جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ محمد یونس کا کہنا ہے کہ کچھ دیہاتوں نے ہاکروں کا داخلہ روک دیا ہے۔ اتفاق سے تقریباً تمام ہاکر ایک ہی کمیونٹی سے آتے ہیں۔ اب شرائط و ضوابط کو بہت سخت کیا جا رہا ہے۔ لڑائیاں بڑھ رہی ہیں۔ دہرادون کے رائے والا میں گزشتہ سال ’لو جہاد‘ کے الزام میں پھلوں کی درجنوں گاڑیوں کو الٹ دیا گیا تھا۔ اب ان دکانداروں نے اپنی جگہ بدل لی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔