اتراکھنڈ: سندروانی گاؤں میں پڑتا شگاف اور لوگوں کی ٹوٹتی امیدیں، کہیں شادی ٹوٹی، کہیں خوابوں کا آشیانہ اجڑا
اتما نے کہا کہ ’’بھیا، ایک ماہ بعد میرے بیٹے کی شادی ہے، لیکن اب سب کچھ برباد ہو گیا ہے۔ گھر، سامان، کھیت۔۔۔ کچھ بھی نہیں بچا۔ سالوں کی محنت اور کمائی سے بنایا گھر اب چھوڑنا پڑ رہا ہے۔‘‘

رات کو سوتے وقت ہر جھٹکا دل کی دھڑکنوں کو تیز کر دیتا ہے۔ پہاڑ سے گرتی چٹانوں کی گونج اور کھسکتی زمین کی سرسراہٹ، گاؤں والوں کو ہر لمحہ موت کے سائے کا احساس کراتی ہے۔ گھروں کی دیواروں پر پڑتی نئی نئی دراریں نہ صرف دیواروں کو توڑ رہی ہیں، بلکہ گاؤں والوں کے اعتماد اور امیدوں کو بھی چکنا چور کر رہی ہیں۔ کچھ اس درد سے گزر ہے ہیں اور زندگی و موت کے درمیان جھول رہے ہیں اتراکھنڈ کے سندروانی گاؤں کے لوگ۔

اتراکھنڈ کے رودرپریاگ ضلع کے اگستیمونی ڈیولپمنٹ بلاک کا یہ وہی سندروانی تلی گاؤں ہے جہاں گزشتہ ایک ہفتہ سے لینڈ سلائیڈنگ اور زمین دھنسنے کے واقعہ نے تقریباً 20 خاندانوں کی نیندیں اڑا دی ہیں، کبھی محفوظ آشیانہ کہے جانے والے گھر اب ملبوں میں تبدیل ہو رہے ہیں۔ لوگ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے کھیت، گئوشالائیں اور نسلوں کی کمائی مٹی میں دھنستے دیکھنے کو مجبور ہیں۔ باوجود اس کے اب تک اس گاؤں کی خبر لینے والا کوئی نہیں ہے، جبکہ پورے گاؤں والے ایک آواز میں کہہ رہے کہ ہمیں یہاں سے منتقل کیا جائے۔
گاؤں کے لوگوں کی حالت ’آگے کنواں تو پیچھے کھائی‘ جیسی بنی ہوئی ہے، ایک طرف جہاں گھروں کے اوپر سے پہار ٹوٹ رہے ہیں تو وہیں دوسری جانب نیچے سے زمین کھسک رہی ہے، باوجود اس کے اب تک اس گاؤں کے لوگوں کو بچانے کے لیے حکومت اور انتظامیہ نے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا ہے۔ یہی ناراضگی لوگوں کے درمیان بھی ہے۔ آفت کے دہانے پر کھڑے اس گاؤں کے لوگ اس قدر ڈرے ہوئے ہیں کہ کئی راتوں سے ڈھنگ سے سو نہیں پائے ہیں۔ لوگ اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے خوابوں کے گھروں، کھیتوں اور کئی دہائیوں سے محفوظ کر کے رکھے ہوئے اپنی اچھی-بری یادوں کو یوں برباد ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ گاؤں والوں کے اس درد کو ہم نے بھی قریب سے محسوس کرنے کی کوشش کی۔ جب ہم نے گاؤں کے لوگوں سے فون پر بات کی تو ان کی آواز میں ہی ان کی بے بسی اور درد صاف جھلک رہی تھی۔

سالوں کی محنت ملبے میں دبی، اُتما دیوی کی آنکھوں سے چھلکا سندروانی کا درد
سندروانی گاؤں کی اتما دیوی بشٹ ہماری آواز سنتے ہی رو پڑیں۔ کانپتی ہوئی زبان سے انہوں نے کہا کہ ’’بھیا، ایک ماہ بعد میرے بیٹے کی شادی ہے، لیکن اب سب کچھ برباد ہو گیا ہے۔ گھر، سامان، کھیت۔۔۔ کچھ بھی نہیں بچا۔ سالوں کی محنت اور کمائی سے بنایا گھر اب چھوڑنا پڑ رہا ہے۔ آج نہیں تو 2 سال بعد ہی سہی، ہمیں یہ جگہ چھوڑنی ہی پڑے گی۔‘‘ اپنی حالت بتاتے ہوئے اتما کی آواز اور بھاری ہو گئی۔
اتما نے کہا کہ ہم نے مزدوری کر کے یہ گھر بنایا تھا، خاندان میں کوئی بھی سرکاری نوکری میں نہیں ہے۔ بچے ہوٹلوں میں کام کر رہے ہیں۔ ہم دونوں میاں بیوی یہاں رہتے ہیں، وہی ہمارا سہارا ہے۔ لیکن اب گھر ٹوٹ چکا ہے۔ اتما نے نم آنکھوں کے ساتھ ہم سے گزارش کی کہ ہماری آواز اوپر تک پہنچا دو۔ ہمیں مدد دلوا دو۔ کوئی اپنا گھر نہیں چھوڑنا چاہتا، لیکن بحالت مجبوری مجھے ایسا کرنا پڑ رہا ہے۔ فی الحال جان بچ جائے اس سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ گاؤں والوں کا غصہ اور درد اسی طرح انتظامیہ اور لیڈران کی بے حسی پر بھی ہے، اتما بتاتی ہے کہ رکن اسمبلی کو بھی اس کی اطلاع دے دی گئی ہے، وہ اب تک نہیں آئے لیکن ان کا لڑکا نمائندہ کے طور پر گاؤں ضرور آیا اور الرٹ رہنے کی بات کہہ کر چلا گیا۔

راج بھر نے سنائی سندروانی گاؤں کی تباہی کی داستاں
اتما کے علاوہ ہم نے گاؤں کے ہی راج بھر سے بھی بات کی۔ راج بھر بتاتے ہیں کہ گزشتہ ایک ہفتہ سے زمین کے دھنسنے کی پریشانی کا سامنا پورا گاؤں کر رہا ہے، پہلے یہ پریشانی تھوڑی سی ہی تھی، لیکن اب گاؤں کے تمام گھروں میں دراریں ہیں۔ کھیت کے کھیت بارش سے آئی لینڈ سلائیڈ سے غائب ہو گئے ہیں۔ گئوشالہ تباہ ہو چکے ہیں، راستے مکمل طور سے دھنس گئے ہیں۔ جہاں پہلے کبھی ہریالی ہوا کرتی تھی اب وہ جگہ بھی تباہ ہو چکی ہے۔
راج بھر بتاتے ہیں کہ اس بات کو ایک ہفتہ سے زیادہ ہو گیا ہے، اس حوالے سے انہوں نے کئی بار شکایت بھی کی۔ حالانکہ راج بھر اس بات کو مسلسل کہہ رہے ہیں کہ حکومت انتظامیہ لگاتار کام کر رہی ہے لیکن ٹھوس یقین دہانی اب تک نہیں مل پائی ہے۔ راج بھر نے بتایا کہ کل ایس ڈی ایم گاؤں میں آئی تو سہی لیکن یہ کہہ کر چلی گئی کہ کہیں آپ کی زمین ہو تو ہم آپ کو وہاں منتقل کر دیں گے اور اگر نہیں ہے تو پھر ماہرین ارضیات کا انتظار کیجیے وہ بتائیں گے کہ خطرہ کتنا ہے، یعنی اب خطرے کی بنیاد پر اس گاؤں کا مستقبل طے کیا جائے گا۔ برباد ہو چکے اس گاؤں کا پہلے تو سروے ہوگا پھر جاکر یہ فیصلہ لیا جائے گا کہ منتقل کرنا بھی ہے یا نہیں۔

’نہ اسکول، نہ راستے، سندروانی گاؤں زندگی اور موت کے درمیان جھول رہا ہے‘
فی الحال گاؤں میں لائٹ تو ہے لیکن اب تک کئی راتیں یہ گاؤں والے اندھیرے میں گزار چکے ہیں۔ اس بات کی جانکاری خود گرام پردھان کے شوہر ونود نے دی۔ پردھان شوہر ونود رانا سے بھی ہم نے بات کی، ایک لمبی سانس لینے کے بعد ونود کا پہلا جواب یہی تھا کہ ’’بھائی جی فی الحال تو ہم اسی گاؤں میں ہیں اب تک ہمیں کہیں منتقل نہیں کیا۔‘‘ ونود سے ہم نے گاؤں میں آئی اس آفت کو سمجھنے کی کوشش کی تو ونود نے بتایا کہ سب کچھ ختم ہو چکا ہے، نہ اسکول ہے، نہ راستے، کئی گھر تو ایسے ہیں جو مکمل طور سے برباد ہو گئے ہیں۔ ان گھروں کے لوگوں کو بھی ابھی گاؤں میں ہی دوسرے گھروں پر منتقل کیا ہے۔ مجموعی طور پر پورا گاؤں زندگی اور موت کے درمیان جھول رہا ہے۔
ونود بتاتے ہیں کہ آفت کی خبر ملنے کے کچھ دن بعد اگر کوئی مسلسل آ رہا ہے تو وہ پٹواری ہے، حالانکہ پٹواری بھی وہی بات کہہ رہا ہے جو گزشتہ دنوں ایس ڈی ایم نے کہی تھی کہ ’’خطرہ کتنا بڑا ہے پہلے یہ دیکھا جائے گا اس کے بعد منتقلی کا فیصلہ لیا جائے گا۔‘‘ بجلی، پانی کے علاوہ راشن اور صحت کی خدمات کے بارے میں ونود نے بتایا کہ بجلی، پانی تو جیسے تیسے چل رہا ہے لیکن صحت کی سہولیات کچھ نہیں ہے۔ پریشان ونود بتاتے ہیں کہ قریب 150 سال پرانے بسے اس گاؤں کو چھوڑنے کی نوبت آج تک نہیں آئی تھی، اس سے قبل سال 2009 میں مسلسل ہونے والی بارش کے سبب تھوڑی پریشانیاں آئی تھیں، اتنا ہی نہیں سال 2013 میں آئی آفت میں بھی اس گاؤں کو تھوڑا بہت ہی نقصان ہوا تھا۔ سندروانی گاؤں کی آج جو حالت ہے اس کی وجہ پانی کی نکاسی نہ ہونا اور ذیلی گدیرے (برساتی نالہ) کو مانا جا رہا ہے۔

گاؤں برباد، لیکن ریلوے ٹنل کا کام جاری‘، منٹو نے اٹھایا بڑا سوال
آفت کی وجہ سے پریشان اس گاؤں کی مدد کے لیے دوسرے گاؤں کے لوگ بھی آ رہے ہیں۔ آس پاس کے کئی گاؤں کے لوگ سندروانی کے لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں اور جتنی مدد ہو سکتی ہے وہ کر رہے ہیں۔ سندروانی پلی سے سندروانی تلی گاؤں کے پاس پہنچے منٹو بسٹ سے بھی ہم نے بات کی اور تلی گاؤں میں اپنوں کے پاس پہنچے منٹو بسٹ سے بھی ہم نے بات کی اور اس کی بات سمجھنی چاہی۔ منٹو کا کہنا ہے کہ آفت کی مار جھیل رہے سندروانی تلی گاؤں کے لوگ بھی اب ’بھگوان بھروسے‘ ہیں، ہر سیکنڈ موت کا سامنا کر رہے ہیں یہاں کے لوگوں میں انتظامیہ کے خلاف غصہ تو بہت ہے، لیکن فی الحال جان بچ جائے یہ ضروری ہے۔ منٹو کہتے ہیں کہ کبھی ہرے بھرے کھیت اور محفوظ مکان کہلانے والی یہ جگہ اب خوف اور بے یقینی کی علامت بن چکی ہے۔
منٹو سے بات چیت کے دوران ہمیں ایک اور بات حیران کرنے والی لگی وہ یہ کہ اس گاؤں سے قریب 4-3 کلومیٹر دور (فضائی دوری) ترقی کے نام پر وزیر اعظم مودی کے خوابوں کا پروجیکٹ رشی کیش-کرن پریاگ ریلوے لائن کا کام اب بھی جاری ہے۔ ہم نے جب گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کی تو سوال ذہن میں آیا کہ سندروانی تلی گاؤں کی آج کی صورتحال کا ذمہ دار کہیں یہ پروجیکٹ تو نہیں۔ اس بات پر منٹو کا کہنا ہے کہ پہلے کئی بار یہ بات تو سنی گئی ہے کہ ٹنل بنانے کے دوران جو دھماکے ہوتے تھے اس دوران کئی گاؤں میں اس کا اثر لوگ محسوس کرتے تھے، حالانکہ سندروانی گاؤں میں یہ بات سننے میں کبھی نہیں آئی۔ منٹو بتاتے ہیں کہ شدید بارش اور لینڈ سلائیڈنگ کے درمیان اب بھی ٹنل کے اندر کام چل رہا ہے۔ بھاری بھرکم ڈمپر اور مشینوں کی آواز وہاں سے گزرتے وقت سنائی پڑتی ہے۔

بڑی انہونی سے پہلے جاگنے کا وقت!
خیر اتراکھنڈ میں آج سندروانی تلی گاؤں کی جو صورتحال ہے وہ پہلی نہیں ہے، ایسے کئی گاؤں پہلے بھی آفت کی زد میں آ چکے ہیں، جوشمیٹھ، ٹہری ضلع میں واقع نریندر نگر کا اٹالی گاؤں، رودرپریاگ ضلع کا ہی مروڑا گاؤں، پوڑی کا سوڑ گاؤں اور نینی تال میں بھی کئی گاؤں، نہ جانیں ایسے کتنے گاؤں ہیں جہاں وجود خطرے میں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہاں کے لوگ ہر سیکنڈ موت کے ڈر کے ساتھ جی رہے ہیں۔ گھروں، کھیتوں اور یادوں کے ساتھ ان کا پورا وجود مخدوش ہو رہا ہے۔ انتظامی مشینری ارضیاتی سروے اور اس کے بعد رپورٹ کے انتظار کی بات کہہ رہی ہے، جبکہ گاؤں والے فوری طور پر منتقلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ کیا پہلے لوگوں کی جان بچانا ضروری نہیں ہے؟ کیا حکومت آفت آنے کا انتظار کر رہی ہے، پھر کارروائی کرے گی؟ جب گھر ٹوٹ رہے ہیں، کھیت کھسک رہے ہیں اور لوگ راتیں جاگ کر گزار رہے ہیں، تب صرف جانچ اور رپورٹ کا انتظار کتنا جائز ہے؟ کیا انتظامیہ کی ذمہ داری صرف خطرے کا اندازہ لگانا ہے یا خطرے میں جی رہے لوگوں کو فوری طور پر محفوظ مقامات پر پہنچانا بھی ہے؟