اتر پردیش: باغپت کے کئی مدارس کو ’رائٹ ٹو ایجوکیشن‘ کے تحت نوٹس

صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے کہا کہ آ رٹی ای ترمیمی ایکٹ میں مدرسوں کو مستثنی کیا گیا ہے، اس لیے ایسے افسران پر کارروائی کی جائے جو اہل مدارس کو نوٹس جاری کر ہراساں کرتے ہیں۔

تصویر بذریعہ پریس ریلیز
تصویر بذریعہ پریس ریلیز
user

پریس ریلیز

نئی دہلی: باغپت کے کئی مدرسوں کو رائٹ ٹو ایجوکیشن کے تحت نوٹس تھما دیا گیا ہے کہ آر ٹی ای ایکٹ کے تحت ان مدرسوں کی منظوری نہیں ہے، اس لیے ان کو فوراً بند کر دیا جائے ورنہ ایک لاکھ روپے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ کچھ مدرسوں پر ایک لاکھ روپے کا جرمانہ عائد بھی کیا گیا ہے۔ یہ نوٹس محکمہ تعلیم باغپت نے جاری کیا ہے۔ اس سلسلے میں صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی کی ہدایت پر جمعیۃ علماء باغپت کی ایک اہم میٹنگ منعقد ہوئی جس میں جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا حکیم الدین قاسمی شریک ہوئے۔ انھوں نے نوٹس سے متعلق کہا کہ کسی طرح سے گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے، مدرسوں کے تمام کاغذات مکمل کر لیں اور جو ایک ایک لاکھ روپے کا نوٹس جاری کیا گیا ہے، اس سے متعلق ڈی ایم باغپت کو اپنے جواب سے مطلع کر دیں۔ چنانچہ دہلی اور باغپت میں وکیلوں کے مشورے کے بعد ضلع انتظامیہ باغپت کو علاقے کے 37 مدرسوں کی طرف سے نمائندگی کرتے ہوئے حافظ محمد قاسم ناظم جمعیۃ علماء ضلع باغپت نے ایک جواب ارسال کیا ہے کہ ’’رائٹ ٹو ایجوکیشن کی ترمیمی ایکٹ 2012 کی دفعہ 2(5) میں واضح طور سے لکھا ہوا ہے کہ یہ قانون مدرسوں، پاٹھ شالاؤں یا مذہبی اداروں پر عائد نہیں ہوتا ہے۔ اس طرح یہ نوٹس جاری کیا جانا قانون کی خلاف ورزی ہے اور ایک قوم کو پریشان کرنے کے برے مقصد سے دیا جا رہا ہے۔ ضلع انتظامیہ سے درخواست کی جاتی ہے کہ جو بھی نوٹس مدرسوں کو جاری کیا گیا ہے، اسے فوراً واپس لیا جائے۔‘‘ اس خط کی کاپی باغپت کلکٹر کو ارسال کیا گیا، جس کے جواب میں کلکٹر صاحب نے وضاحت کی ہے کہ اہل مدارس ہرگز نہ گھبرائیں اور وہ نوٹس کا جو بھی جواب دینا چاہیں، دے دیں۔ اس سلسلے میں کسی قسم کی پریشانی اور فکر کی ضرورت نہیں ہے، آر ٹی ای قانون میں جس طرح کا استثنیٰ ہے، اس کو بہر صورت ملحوظ خاطر رکھا جائے گا۔

اتر پردیش: باغپت کے کئی مدارس کو ’رائٹ ٹو ایجوکیشن‘ کے تحت نوٹس

صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا محمود اسعد مدنی نے اس طرح کے واقعات کے سامنے آنے پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا کہ قانون سے ہٹ کر بلاوجہ نوٹس جاری کرنے والے افسران کے خلاف کارروائی کی جائے۔ نیز اہل مدارس اپنے علاقوں کی جمعیۃ علماء سے رابطہ کریں، ان کی ہر ممکن مدد کی جائے گی۔


واضح ہو کہ جب 2010ء میں یہ ایکٹ نافذ العمل ہوا تو مختلف طبقات کی جانب سے خدشات ظاہر کئے گئے تھے۔ جمعیۃ علماء ہند نے اس سلسلے میں وزیر تعلیم کپل سبل سے ملاقات کی اور مدارس سے متعلق درپیش خدشات کو دور کرنے کی گزارش کی، نیز جمعیۃ نے 5 اگست 2010 کو انڈیا انٹرنیشنل سینٹر نئی دہلی میں ’لازمی عصری تعلیم کا چیلنج کانفرنس‘ منعقد کیا۔ اس میں کپل سبل، سلمان خورشید اور کے رحمن خاں شریک ہوئے۔ جس کے بعد اس وقت کے وزیر تعلیم کپل سبل نے جمعیۃ کے مطالبات کی روشنی میں باضابطہ ترمیم کر کے مدارس اور مذہبی تعلیمی اداروں کو مستثنی کردیا جو آر ٹی ای امینڈمینٹ ایکٹ 2012 نام سے موجود ہے، جس کی شق 5 میں صاف لکھا ہے کہ اس قانون کی کوئی بات مدرسوں، ویدک پاٹھ شالاؤں اور بنیادی طور سے مذہبی تعلیم مہیا کرانے والے تعلیمی اداروں پر نافذ نہیں ہوگی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔