مظفر نگر میں 2 ہزار کسانوں کے اکاؤنٹ سے ’سمّان ندھی‘ کی رقم غائب

اکاؤنٹ سے خود بخود رقم نکلنے سے کسان پریشان ہیں۔ ایک کسان کا کہنا ہے کہ ’’اکاؤنٹ سے پیسہ واپس ہونا کسانوں کی دُکھتی رَگ کو دبانے کے مترادف ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ حکومت کس قدر بے رحم ہے۔‘‘

تصویر آس محمد
تصویر آس محمد
user

آس محمد کیف

مظفر نگر: مرکزی حکومت کے ذریعہ عام انتخابات کی تاریخوں کےا علان سے ٹھیک پہلے جاری کی گئی ’کسان سمّان ندھی یوجنا‘ کے نام پر کسانوں کے ساتھ زبردست دھوکے کی بات سامنے آئی ہے۔ دراصل مرکزی حکومت نے کسانوں کے اکاؤنٹ میں ہر سال 6 ہزار روپے بھیجنے کا اعلان کی تھا جس کی پہلی قسط 2 ہزار روپے ایک لاکھ تین ہزار کسانوں کو دینے کا دعویٰ بھی کیا گیا تھا۔ لیکن اب حیرت انگیز طریقے سے کسانوں کے اکاؤنٹ سے یہ رقم غائب ہو گئی ہے۔ صرف مظفر نگر میں 3 ہزار سے زیادہ کسانوں کے اکاؤنٹ سے یہ امدادی رقم واپس چلی گئی ہے۔ اب کسان روزانہ اپنی شکایت لے کر بینک دفتروں کا چکر کاٹ رہے ہیں، لیکن افسران ہیں کہ کچھ بتا نہیں رہے۔

مظفر نگر کی انچارج ڈی ایم ارچنا ورما سے جب ’قومی آواز‘ نے اس سلسلے میں سوال کیا تو انھوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کسانوں کے اکاؤنٹ سے پیسے نکل گئے ہیں۔ ارچنا ورما نے کہا کہ ’’کسانوں کی شکایتیں ملی ہیں اور حکومت کو خط بھیجا جا چکا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے ہوا ہے۔‘‘


غور طلب ہے کہ اس سے قبل گورکھپور، بارہ بنکی اور کانپور میں بھی ہزاروں کسانوں کو ملا یہ پیسہ واپس ہو گیا تھا۔ مظفر نگر کے علی پورہ گاؤں کے برج پال کے مطابق اسے گزشتہ مہینے اپنے اکاؤنٹ میں دو ہزار روپے آنے کا پیغام ملا تھا۔ اب اسے پیسہ کی ضرورت تھی اور جب وہ بینک میں پیسہ لینے گیا لیکن اسے وہاں بتایا گیا کہ اس کا پیسہ واپس ہو گیا ہے۔ بھوپاکے کسان منوج راٹھی کے ساتھ بھی یہی ہوا۔

بھارتیہ کسان یونین کے ضلع صدر راجو اہلاوت نے اس سلسلے میں بتایا کہ یہ بات درست ہے کہ کسانوں کے اکاؤنٹ سے پیسے غائب ہو گئے ہیں۔ ہم یومِ کسان کے موقع پر اس ایشو کو اٹھائیں گے۔ اگر کسانوں کو یہ پیسہ دینا نہیں تھا تو پھر ڈھنڈورا پیٹنے کی کیا ضرورت تھی! اب یہاں الیکشن ہو چکا ہے اس لیے پیسے واپس لے لیے گئے۔


دھیان دینے والی بات ہے کہ پی ایم نریندر مودی نے حکومت کے عبوری بجٹ میں کسان سمّان ندھی کا اعلان کیا تھا۔ اس کے تحت تقریباً 27 بیگھا زمین سے کم والے کسانوں کے اکاؤنٹ میں 6 ہزار روپے سالانہ بھیجنے تھے جس میں 2 ہزار روپے سہ ماہی بھیجے جانے کا منصوبہ تھا۔ اتر پردیش میں ایسے دو لاکھ بیس ہزار کسانوں کا انتخاب کر لیا گیا۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ پی ایف ایم ایس سے ایک لاکھ 3 ہزار کسانوں کے اکاؤنٹ میں 2 ہزار روپے کی پہلی قسط بھیجی گئی۔

حالانکہ اس منصوبہ کا زیادہ تر پیسہ اپریل میں اکاؤنٹ میں آیا۔ اسی مہینے مغربی اتر پردیش میں لوک سبھا الیکشن چل رہا تھا۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ پیسہ کہاں گیا ہے، اس سلسلے میں بینک افسران نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ کسان مہیش کمار کے مطابق ان کے ساتھ دھوکہ ہوا ہے۔ ایک دیگر کسان منصور کہتے ہیں کہ مودی ایسے ہی کام کرنے کے لیے بدنام ہو چکے ہیں۔ دھوکہ کھائے ہوئے کسانوں کی کم و بیش 2 ہزار شکایتیں تو مظفر نگر کے محکمہ زراعت کو مل چکی ہیں۔


آر ایل ڈی ترجمان ابھشیک چودھری کے مطابق مرکزی حکومت کے مکھیا نریندر مودی کو عوام اس لیے ہی بدلنے جا رہی ہے کیونکہ وہ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ ہیں۔ ’کسان سمّان ندھی یوجنا‘ پہلے ہی کسی کے گلے نہیں اتر رہی تھی، اور اب تو سب اس کے خلاف کھڑے ہوتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ ابھشیک چودھری کہتے ہیں کہ ’’کسان کو خیرات کی ضرورت نہیں تھی، اسے اس کی فصلوں کی واجب قیمت اور گنے کا پیمنٹ مل جائے تو کسان اسی میں خوش ہو جائے گا۔‘‘کسن سمّان ندھی یوجنا کے بارے میں انھوں نے کہا کہ ’’یہ منصوبہ ایک سراب تھا جسے انتخاب سے ٹھیک پہلے کسانوں کو بے وقوف بنانے کے لیے لایا گیا تھا۔ اب انتخابات ہو گئے ہیں تو پیسہ واپس لے لیا گیا۔ کسان بھولے بھالے ہوتے ہیں۔ وہ جب ضرورت پڑنے پر بینک گئے تو سچ ان کے سامنے آ گیا۔‘‘

محکمہ زراعت کے ڈپٹی ڈائریکٹر نریندر کمار سے جب رقم اکاؤنٹ سے واپس ہونے کے بارے میں کہا گیا تو انھوں نے بتایا کہ ’’رقم کسانوں کے اکاؤنٹ میں سیدھے دہلی سے بھیجی گئی تھی اور وہیں واپس چلی گئی۔ زیادہ تر کسانوں کی طرف سے رقم واپسی کی شکایتیں آ رہی ہیں۔ یہ تعداد دو ہزار سے زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ دو ہزار شکایتیں تو اب تک موصول ہو چکی ہیں۔‘‘


نیا گاؤں بھُمّا کے کسان بشمبر سنگھ کے پیسے بھی واپس ہو گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اب یہ صاف سمجھ میں آ گیا ہے کہ یہ بھی ایک انتخابی جملہ تھا۔ یہ دھوکے باز لوگ ہیں۔ مظفر نگر میں کل 41 کروڑ روپے بھیجے گئے تھے اور ان میں کتنا پیسہ واپس چلا گیا، اس کی جانکاری بینک افسران نہیں دے رہے۔ شکایتوں کی بنیاد پر رقم کا اندازہ لوگ لگا رہے ہیں، لیکن یہ بہت زیادہ ہو سکتا ہے کیونکہ کئی کسان تو ایسے ہوں گے جنھیں پتہ ہی نہیں چلا ہوگا کہ رقم واپس جا چکی ہے۔

رسول پور کے کسان اور سابق پردھان شکیل احمد کے مطابق فہرست میں نام درج کروانے کے لیے مقامی رجسٹرار نے کسانوں کا خوب استحصال کیا اور پانچ پانچ سو روپے رشوت بھی لی۔ کاغذی کارروائی بھی سختی کے ساتھ کی گئی۔ ظاہر ہے کہ اب اکاؤنٹ سے پیسہ واپس ہونا کسانوں کی دُکھتی رَگ کو دبانے کے مترادف ہے۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ حکومت کس قدر بے رحم ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 11 May 2019, 10:10 PM