ضمنی انتخاب: پھول پور کی زمین بی جے پی کے لیے کانٹوں بھری راہ

وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ پھول پور میں لگاتار اجلاس کر رہے ہیں لیکن وہ غیر بی جے پی پارٹیوں کے بھنور سے سیٹ نکال پائیں گےیہ مشکل نظر آ رہا ہے۔

تصویر سوشل میدیا
تصویر سوشل میدیا
user

آس محمد کیف

لکھنؤ: 2014 کے عام انتخابات میں بی جے پی کو 281 سیٹوں پر فتح حاصل ہوئی تھی اس کے بعد سے یہ تعداد لگاتار گھٹتی جا رہی ہے۔ لوک سبھا سیٹ کے لیے ہونے والے ضمنی انتخابات بی جے پی کے لیے برے خواب بن گئے ہیں۔ لگاتار گھٹتی لوک سبھا میں ان کے اراکین کی تعداد نے بی جے پی میں ایک خوف بیٹھا دیا ہے۔ اتر پردیش کی تین لوک سبھا سیٹ اس وقت ممبر پارلیمنٹ سے محروم ہیں جن میں دو پر 11 مارچ کو ووٹنگ ہے اور تیسری سیٹ کیرانہ کی ہے جس کے متعلق ابھی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ بی جے پی اگر یہ تینوں سیٹ ہار جاتی ہے تو وہ اگلے پارلیمانی الیکشن میں اپنے دَم پر حکومت بنانے کی حالت میں نہیں رہ جائے گی۔ اسے بی جے پی کی نفسیاتی شکست تصور کیا جائے گا اور موجودہ سیاسی ماحول میں اس کا امکان بڑھ گیا ہے۔

اتر پردیش 2017 کے اسمبلی انتخابات میں فتح حاصل کرنے والی بی جے پی کی خوشی کافور ہونے والی ہے۔ تینوں لوک سبھا سیٹ پر بی جے پی کی واپسی بہت مشکل ہو گئی ہے۔ سماجوادی پارٹی-بہوجن سماج پارٹی-راشٹریہ لوک دل کے ساتھ آنے اور کانگریس کے ذریعہ مقابلہ سہ رخی بنانے کے بعد بی جے پی پریشان ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ کیرانہ میں ابھی انتخاب کا اعلان نہیں ہوا ہے لیکن اگر وہاں بھی سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور راشٹریہ لوک دل کا یہ اتحاد قائم رہتا ہے تو آنجہانی ممبر پارلیمنٹ حکم سنگھ کی موت سے خالی ہوئی اس سیٹ پر بھی بی جے پی کو یقینا شکست فاش ہوگی۔

فی الحال پریشانی پھول پور میں زیادہ ہے۔ یہاں کی زمین بی جے پی کے لیے کاٹنوں بھری راہ معلوم پڑ رہی ہے۔ جیت کے لیے بی جے پی نے پوری بھگوا طاقت جھونک دی ہے لیکن اس کے بعد بھی حالات قابو میں نہیں آ رہے ہیں۔ پارٹی کو اس بحران سے نکالنے کے لیے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ یہاں لگاتار اجلاس کر رہے ہیں لیکن وہ غیر بی جے پی پارٹیوں کے بھنور سے جیت نکال پائیں گے اب اس میں شبہ ہے۔ یہاں 2014 میں ان کے امیدوار کیشو پرساد موریہ نے بہوجن سماج پارٹی کے کپل کروریا کو 5 لاکھ ووٹوں سے ہرایا تھا۔ کیشو پرساد موریہ جو کہ اب نائب وزیر اعلیٰ ہیں۔ انھوں نے یہاں کیمپ کر لیا ہے اور وہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ بی جے پی اپنا گزشتہ ریکارڈ توڑ دے گی۔ لیکن سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور راشٹریہ لوک دل کےمتحد ہونے کے بعد یہ ممکن نظر نہیں آتا۔ سماجوادی پارٹی کے الٰہ آباد ضلع صدر کرشن مورتی یادو ہم سے کہتے ہیں کہ ’’14 مارچ (ووٹوں کی گنتی والا دن) کا انتظار کیجیے، ان کو جواب مل جائے گا۔ عوام ان سے پریشان ہو چکی ہے۔ آپ ہم سے نتیجہ آنے کے بعد ضرور بات کیجیے گا۔ ہمیں حساب چُکتا کرنا ہے۔‘‘

پھول پور تاریخی اہمیت کی حامل لوک سبھا سیٹ ہے۔ ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو یہاں سے تین مرتبہ ممبر پارلیمنٹ رہے اور بعد میں ان کی بہن وجے لکشمی پنڈت یہاں سےممبر پارلیمنٹ رہیں۔ رام منوہر لوہیا یہاں سے انتخاب ہار گئے تھے جب کہ جنیشور مشرا بعد میں یہاں سے فتحیاب ہوئے۔ وی پی سنگھ بھی یہاں سے فتحیابی حاصل کر کے وزیر اعظم بنے ہیں۔ یہاں آئرن لیڈی اندرا گاندھی نے ’اِفکو‘ قائم کیا تھا جو یہاں سب سے بڑا روزگار کا ذریعہ ہے۔ ان کے چیف سکریٹری جے این مشرا یہاں پورے ایک گاؤں کو روزگار دینے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ ان کے بیٹے منیش مشرا کو کانگریس نے یہاں امیدوار بنایا ہے۔ ڈیڑھ لاکھ آبادی والی عام ذاتوں میں ان کی گرفت مضبوط ہے۔ 3 لاکھ کی تعداد والی پٹیل برادری کو سماجوادی پارٹی اور بی جے پی نے ٹکٹ دیا ہے۔ بہوجن سماج پارٹی کی حمایت کے بعد سماجوادی پارٹی امیدوار ناگیندر پٹیل کو مضبوطی مل گئی ہے۔ بی جے پی کوشلیندر پٹیل کو انتخاب لڑا رہی ہے۔ کوشلیندر وارانسی کے میئر رہ چکے ہیں۔

2014 میں بی جے پی نے سب سے زیادہ ووٹوں سے اسی سیٹ کو جیتا تھا اس سے پہلے بی جے پی یہاں کبھی نہیں جیت پائی تھی۔ یہاں سے فتحیابی کے بعد کیشو پرساد موریہ کو بی جے پی کے ریاستی صدر کی کرسی بطور انعام دی گئی تھی۔ بہوجن سماج پارٹی میں وزیر رہ چکے جاوید اقبال کا کہنا ہے کہ ’’اب شکست کے بعد نائب وزیر اعلیٰ کی کرسی بھی چھین لی جائے گی۔ اس ماحول کو دیکھتے ہوئے کیشو پرساد موریہ یہاں پوری طاقت لگا رہے ہیں۔ یہ دیگر بات ہے کہ ٹکٹ ان کی مرضی کے خلاف دیا گیا۔‘‘

الہ آباد کے وجے مشرا بتاتے ہیں کہ ’’2014 کی فتح کے بعد علاقے میں ان کی موجودگی بہت کم رہی۔یہاں نہ تو نوجوانوں کو روزگار ملا اور نہ ہی سہولیات میں کوئی بہتری ہوئی۔ ان کی جوابدہی سے متعلق لوگ یہاں سوال پوچھتے ہیں، وہ اپنے کسی قریبی کے لیے ٹکٹ مانگ رہے تھے لیکن ان کی نہیں چلی۔ وہ پارٹی کے لئے کام توکر رہے ہیں لیکن ان کے خاص حامیوں میں ناراضگی ہے۔ وہ بے دلی کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔‘‘

پھول پور کی سیٹ سے بی جے پی ہائپرٹینشن میں آ گئی ہے۔ سماجوادی پارٹی کے امیدوار کو بہوجن سماج پارٹی کی حمایت کے بعد یہاں بی جے پی لیڈران پوری طرح بوکھلا گئے ہیں ۔ انھوں نے لفظوں کی حد بھی لانگھ دی۔ آج ریاستی حکومت میں ایک وزیر نند گوپال نندی نے تو بہوجن سماج پارٹی کی سپریمو مایاوتی کو ’سپرنکھا‘ اور ملائم سنگھ کو ’راون‘ تک کہہ دیا ہے۔ اس سے پہلے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اس کو ’بیر-کیر‘ کا میل بتا ہی چکے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بی جے پی کے سابق ریاستی صدر لکشمی کانت واجپئی نے تو اسے سانپ اور نیولا کی دوستی بتا دیا ہے۔ پھول پور میں سماجوادی پارٹی کے انتخابی تشہیر دفتر کے انچارج سابق وزیر منیر احمد خان ہم سے کہتے ہیں کہ ’’اگر بی جے پی 365 پارٹیوں سے اتحاد کر لے تو جائز، اور انصاف کے لیے استحصال شدہ سماج کے لوگ ایک پلیٹ فارم پر آ جائیں تو ان کے پیٹ میں درد ہو جاتا ہے۔‘‘

دلتوں میں بھی اس مرتبہ ناراضگی اپنے عروج پر ہے۔ طلبا لیڈر رِچا کہتی ہیں ’’یہاں شہر میں سر عام ایک دلت نوجوان کا پیٹ پیٹ کر قتل کر دیا گیا۔ کیا یوگی اسی طرح کے نظامِ قانون کو رول ماڈل بتاتے ہیں! اس بار دلتوں اور مسلمانوں میں کوئی کنفیوژن نہیں ہے۔ وہ بی جے پی کی انا کو توڑنے کے لیے ووٹ کر رہے ہیں حالانکہ یہاں سے ممبر پارلیمنٹ رہے زور آور لیڈر عتیق احمد بھی یہاں آزاد امیدوار کی شکل میں انتخاب لڑ رہے ہیں لیکن عوام انھیں صرف ووٹ کٹوا تصور کر رہی ہے۔ الٰہ آباد میں کمپیوٹر کی دکان چلانے والے محمد ناصر کہتے ہیں ’’عتیق بھائی کو اپنا پرچہ نہیں بھرنا چاہیے تھا۔ اس بار ان کو کوئی پسند نہیں کر رہا ہے۔‘‘

بی جے پی کو بھی پھول پور سے متعلق ان سبھی چیزوں کی خبر ہے، اسی لیے یہاں پوری طاقت جھونک دی گئی ہے۔ پھول پور کی کانٹوں بھری راہ سے کانٹے ہٹانے کی کوشش میں گورکھپور کی راہ سے بی جے پی کی نظر ہٹ گئی ہے جہاں یوگی آدتیہ ناتھ کے سخت مخالف ایس پی شکلا کے قریبی اوپیندر شکلا کو ٹکٹ دیا گیا ہے ۔جس سے یوگی کے خاص حامیوں کا دل ٹوٹ گیا ہے۔ یہاں سماجوادی پارٹی نے پروین نشاد کو کھڑا کیا ہے۔

کانگریس نے یہاں سیما وجاہت رضوی کو ٹکٹ دیا ہے جنھیں حال ہی میں ہوئے میئر انتخاب میں 81000 ووٹ ملے تھے۔ بی جے پی والوں کی توجہ گورکھپور سے پوری طرح ہٹ گئی ہے۔ گورکھپور کے الحمد حسین کہتے ہیں کہ ’’یہاں بی جے پی کو کنفیڈنس ہے کہ وہ انتخابی تشہیر نہیں بھی کرے گی تو بھی فتح یقینی ہے۔ اس کا یہ گھمنڈ جلد ہی ٹوٹنے والا ہے۔‘‘ بی جے پی کو اگر یہاں شکست ملتی ہے تو سمجھ لیجیے کہ اس کی الٹی گنتی شروع ہو گئی۔ فی الحال بی جے پی خیمہ میں خوف کا ماحول ہے اور دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ان کا یہ خوف کتنا سچ ثابت ہوتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔