امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی توسیع کی ہندوستان کی مانگ کا پرزور حامی: امریکی سفیر

ہندوستان میں امریکہ کے سفیر نے کہا ’’امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی توسیع کی ہندوستان کی مانگ کی پرزور حمایت کرتا ہے ۔ ہمیں ایسے اداروں کی ضرورت ہے جو وقت کے تقاضوں کوپورا کریں‘‘

<div class="paragraphs"><p>امریکی سفیر</p></div>

امریکی سفیر

user

یو این آئی

نئی دہلی: امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی توسیع کی ہندوستان کی مانگ کی پرزور حمایت کرتا ہے۔ ہمیں ایسے اداروں کی ضرورت ہے جو وقت کے تقاضوں کو پورا کریں۔ ہندوستان میں امریکی سفیر ایرک گارسیٹی نے یو این آئی اردو کے ساتھ ایک خصوصی انٹریو میں یہ بات کہی۔

اس سوال پر کہ اقوام متحدہ سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کی مستقل رکنیت میں کس طرح کی رکاوٹیں ہیں اور یہ کہ ہندوستان کب تک اسکا رکن بن سکتاہے، ہندوستان میں امریکہ کے سفیر نے کہاکہ’’ امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی توسیع کی ہندوستان کی مانگ کی پرزور حمایت کرتا ہے ۔ ہمیں ایسے اداروں کی ضرورت ہے جو وقت کے تقاضوں کوپورا کریں ۔ جیسا کہ ہم دیکھ رہے ہیں نئے ممالک آگے بڑھ رہے ہیں ،ہم نے برکس سربراہ کانفرنس میں دیکھا،صرف چھوٹے گروپوں میں ہی نہیں بلکہ اصل گروپ اقوام متحدہ میں بھی خطوں اور ملکوں کی طاقت اور اہمیت کی یکساں طورپر عکاسی ہونی چاہئے ۔‘‘


انھوں نے کہاکہ ’’ اقوام متحدہ میں ضابطے ہیں، اور ہم زیادہ سے زیادہ ووٹوں کے حصول کی کوشش میں ہندوستان کے بھرپور حامی ہیں، لیکن بنیادی طور پر،بدقسمتی سے ،امریکہ نہیں ،بلکہ کسی اورملک کی طرف سے اعتراض ہوتارہاہے اور ہمیں متحد ہونے کی ضرورت ہے، اور میں سمجھتا ہوں کہ مزید ممالک یہ دیکھیں گے کہ جی -20 کے بعد ہندوستان کی قیادت کتنی اہم ہے، اور مجھے امید ہے کہ اس سے زیادہ سے زیادہ حامیوں کواپنی طرف کرنے کی ہندوستان کی مہم میں مدد ملے گی، اور یہ کہ ایک دن جلد ہی ہم بالآخر اسے سچ ہوتا دیکھ سکیں گے۔ ‘‘

ہندوستان کی جی -20صدارت کو وہ کس طرح دیکھتے ہیں ، اس سوال پر مسٹر ایرک گارسیٹی نے کہاکہ ’’ یہ حیرت انگیز رہی ہے۔ میں بہت متاثر ہوا ہوں۔ میں مختلف شہروں کودیکھ کر متاثر ہوا ہوں۔ میں جغرافیائی وسعت سے متاثر ہوا ہوں، لیکن میں اس میں پائی جانے والی اصل گہرائی سے بھی متاثر ہوا ہوں، چاہے وہ ٹکنالوجی ہو، ثقافت ہو، تجارت ہو، سیاحت ہو، فنون ہو،سکیورٹی ہو،داخلی سکیورٹی ہو۔ ہم نے 60شہروں میں بہت سے موضوعات کودیکھا اور ہندوستان اس میں خوبصورتی کےساتھ کامیاب ہواہے ہندوستان نے اس میں دنیا بھر سے لوگوں کو جمع کیا ہے۔ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ ہندوستان ماضی اور مستقبل کے درمیان، مشرق اور مغرب کے درمیان، شمال اور جنوب کے درمیان ایک عظیم کڑی رہا ہے۔ ہم دنیا کے لیے نہ صرف ایک کامیاب جی -20 دیکھنا چاہتے ہیں، بلکہ ہم چاہتے ہیں کہ ڈیجیٹل پبلک انفراسٹرکچر، ماحولیات اور متبادل ادویات جیسے شعبوں میں ہندوستان کی قیادت مستحکم ہو۔ ہم یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ ہندوستانی اقدار دنیا کی بہتری میں کس طرح معاون ہو سکتی ہیں۔ ‘‘


اس سوال پر کہ ہندوستان اور امریکہ اس وقت ایک قریبی اتحادی اور اسٹریٹجک شراکت دار ہیں ، امریکی سفیر نے کہاکہ ’’ مجھے لگتا ہے کہ ہم نے شروعات کی ہے ، امریکہ نے ہندوستان کی آزادی کی وکالت کی تھی۔ صدر روزویلٹ نے ونسٹن چرچل کے ساتھ ایک اہم کردار ادا کیا، اور میں سمجھتا ہوں کہ ہم ایک طویل عرصے سے فطری دوست رہے ہیں۔ لوگوں کے درمیان دوستی وقت کے ساتھ ساتھ گہری ہوتی گئی ہے۔ امریکہ ہجرت کرنے والے ہندوستانی، امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے والے ہندوستانی، اور کئی دہائیوں سے یہاں آنے والے امریکی، کمپنیاں اور لوگ۔ امریکی ثقافت یہاں ہر جگہ ہے۔ امریکہ میں ہندوستانی ثقافت کانظارہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ہر چار میں سے ایک امریکی شہری کا علاج ہندوستانی ڈاکٹر کرتا ہے۔ تو یہ اب ذاتی ہے، اور یہ ہمارے لیڈروں، وزیر اعظم مودی اور صدر بائیڈن کے لیے ذاتی ہے۔ یہ ہماری حکومتوں کے لیے ذاتی ہے، اور یہ ہمارے لوگوں کے لیے ذاتی ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم فطری دوست ہیں، بلکہ اس لیے بھی کہ ہمیں ایک دوسرے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس وقت ایک دوسرے کی ضرورت ہے، اقتصادی طورپر ، اسٹریٹجک طورپر ، اور ہم تسلیم کرتے ہیں کہ جب ہم ایک ساتھ ہوتے ہیں، تو یہ صرف دو ملکوں ہندوستان اور امریکہ کا قریب آنانہیں بلکہ مستقبل میں اس کے بے پناہ امکانات ہیں ۔ ‘‘

پاکستان سے ہونے والی سرحدپار دہشت گردی کا ہندوستان طویل عرصے سے شکار رہا ہے ، کیاامریکہ پاکستان میں دہشت گردوں پر پابندی لگانے اورانعام کا اعلان کرنے سے زیادہ کچھ کرے گا اس پر مسٹر گارسیٹی نے کہاکہ

’’ جب بات دہشت گردی کے خلاف ہونے کی آتی ہے تو ہم اپنے ہندوستانی بھائیوں اور بہنوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ہم نے کبھی اتنے قریب ہوکر کام نہیں کیا جتنااب ہیں ، چاہے رانا کی حوالگی کا معاملہ ہو، چاہے خفیہ معلومات کا تبادلہ ہو، یا عالمی اداروں میں دہشت گردی کے خلاف کھڑا ہونا ہو۔ اور اس معاملے میں ہماراموقف بہت واضح ہے ، چاہے وہ ہندوستان کے پڑوس میں ہو یا یہ دنیا میں کہیں بھی ہو، آپ جانتے ہیں کہ ہم کیا کر سکتے ہیں اس کی حدود ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ پابندیاں، خفیہ معلومات کا تبادلہ، بین الاقوامی انصاف کا مطالبہ، آگے بڑھنے کے سب سے مضبوط راستے ہیں۔ لیکن پاکستان کے ساتھ ہم جڑے ہیں کیونکہ یہ دنیا کے لیے اہم ہے، اور یہ ہندوستان کے لیے بھی اہم ہے کہ وہاں ہمارا اثر رہے، اور ہم آواز اٹھاتے رہیں گے، جیسا کہ حالیہ مہینوں میں ہم نے پرزورطریقے سے پاکستان سے پنپنے والی دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے، جوہندوستان یا کسی دوسرے ملک کو متاثر کرسکتے ہیں ۔‘‘


ہندوستان میں اقلیتوں سے متعلق سابق امریکی صدر بارک اوبامہ کے بیان کےبارے میں پوچھے جانے پر امریکی سفیر نے کہا ’’ ہم سب آزادی اظہار پر بہت پختہ یقین رکھتے ہیں۔ لوگوں کی اپنی رائے ہوسکتی ہے اور انھیں اسکے اظہار کی اجازت ہونی چاہئے، چاہے ہم ان سے اتفاق کرتے ہوں یا اختلاف ۔ لیکن میں یہ کہوں گا، جمہوریت اور گوناگونیت مشکل ہے، لیکن وہ متبادل سے بہتر ہیں۔ میں صرف ایک ثقافت یا مذہب یا روایت والے ملک کے بجائے ہندوستان یا ریاستہائے متحدہ امریکہ جیسے گوناگونیت والے ملک میں رہنا پسند کروں گا ۔ اور میں مطلق العنانیت میں رہنے کے بجائے جمہوریت میں رہنا پسند کروں گا۔ اور اس لیے میں امید کروں گا کہ ہمارے پاس اختلاف رائے کو قبول کرنے کی گنجائش اور جگہ ہو، لوگوں سے نہ بولنے کے لیے نہ کہیں ۔ میں نے ہمیشہ کہا، آپ کوجوبات پسند نہیں ہے اس سے اختلاف کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آپ اپنی بات کہنے کے حق کا استعمال کریں۔ ‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔