اب امریکی خاتون صحافی نے اکبر پر لگایا الزام، کہا ’میری بھی عصمت دری کی گئی‘

امریکی خاتون صحافی پلّوی گوگوئی کے الزام کے بعد سابق مرکزی وزیر ایم جے اکبر نے اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے عصمت دری نہیں کی بلکہ آپسی اتفاق سے رشتہ بنا تھا۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

معروف صحافی اور سیاستداں ایم جے اکبر کی پریشانیاں کم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہیں۔ ان کے خلاف چل رہی ’می ٹو‘ مہم میں ایک اور خاتون صحافی کا نام جڑ گیا ہے۔ ’دی واشنگٹن پوسٹ‘ میں تحریر کردہ اپنی آپ بیتی میں خاتون صحافی پلّوی گوگوئی ایم جے اکبر پر عصمت دری کا الزام عائد کرتے ہوئے لکھتی ہیں کہ ’’ایم جے اکبر جو کہ ایشین ایج اخبار کے ایڈیٹر ان چیف تھے، نے مجھے اپنا شکار بنانے کے لیے اپنے عہدہ کا استعمال کیا۔ آج میں جو شیئر کر رہی ہوں وہ میری زندگی کی سب سے تکلیف دہ یاد ہے۔ اس یاد کو میں 23 سال سے بھولنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ دو دہائی پہلے میں نے اپنے دو دوستوں سے یہ واقعہ بیان کیا تھا۔ اسی وقت اپنے شوہر سے بھی اس کے بارے کہا تھا۔ ایم جے اکبر نے میرے ساتھ جے پور میں عصمت دری کی تھی۔‘‘

الزام عائد کیے جانے کے بعد سابق مرکزی وزیر ایم جے اکبر کا بیان بھی آیا ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ پلّوی گوگوئی کے ساتھ انھوں نے عصمت دری نہیں کی بلکہ تعلقات آپسی اتفاق سے بنے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ کچھ مہینوں تک یہ سب چلا اور پھر ختم ہو گیا۔ پلّوی کے الزام کے تعلق سے ایم جے اکبر کی بیگم ملیکا اکبر کا بھی بیان آیا ہے اور انھوں نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ خاتون صحافی جھوٹ بول رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پلّوی گوگوئی کی وجہ سے ان کے گھر کا ماحول کشیدہ رہا اور لڑائی جھگڑے ہوتے رہے۔ وہ مزید وضاحت پیش کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ پلّوی ان کے گھر آتی تھیں، شراب نوشی کرتی تھیں، اکبر کے ساتھ تقاریب میں رقص کرتی تھیں اور کبھی اسے دیکھ کر ایسا نہیں لگا کہ ان پر کوئی دباؤ ہے یا وہ جنسی استحصال کی شکار ہیں۔ ملیکا اکبر نے تو یہاں تک کہا کہ ’’پتہ نہیں پلّوی کے جھوٹ بولنے کی وجہ کیا ہے لیکن وہ جھوٹ بول رہی ہیں۔‘‘

بہر حال، اس وقت امریکہ میں این پی آر (نیشنل پبلک ریڈیا) میں بطور چیف بزنس ایڈیٹر کام کر رہی پلّوی اپنے ساتھ ہوئی عصمت دری کے بارے میں ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں لکھتی ہیں کہ ’’میری عمر اس وقت 22 سال تھی اور میں ایشین ایج میں کام کرنے گئی تھی۔ یہاں خواتین کی تعداد کافی زیادہ تھی۔ زیادہ تر کالج پاس آؤٹ لڑکیاں تھیں۔ ہمیں اس وقت صحافت کی بنیادی چیزوں کی بھی پوری طرح سمجھ نہیں تھی۔ اکبر کافی مشہور تھے۔ سیاست سے متعلق دو کتابوں کے مصنف تھے اور مدیر بھی۔ ان کی عمر اس وقت تقریباً 40 سال تھی۔ وہ ہماری کاپی کی جانچ کرتے تھے اور غلطیوں کو لال قلم سے گھیر دیتے تھے۔ اسے کوڑے دان میں پھینک دیتے تھے۔ ایسا شاید ہی کوئی دن ہوتا تھا جب وہ اونچی آواز میں ہمیں نہیں بولتے تھے۔ ہم کبھی کبھی ہی ان کے ذریعہ بتائے گئے پیمانوں پر کھرا اترتے تھے۔ وہ نازیبا الفاظ کا بھی استعمال کرتے تھے۔ لیکن میں سوچتی تھی کہ آخر کچھ سیکھ تو رہی ہوں۔‘‘ وہ آگے لکھتی ہیں کہ ’’میں 23 سال کی عمر میں او پی-ای ڈی پیج کی مدیر بن گئی۔ مجھے ٹاپ کالمنسٹ، بڑے سیاسی لیڈر، سماج کے دانشور لوگوں جیسے جسونت سنگھ، ارون شوری، نلنی سنگھ کو فون کرنا ہوتا تھا۔ یہ میرے لیے چھوٹی عمر میں ایک بڑی ذمہ داری تھی۔ لیکن اس ملازمت کی مجھے بڑی قیمت ادا کرنی پڑی جس سے میں بے پناہ محبت کرتی تھی۔ 1994 کی بات ہے جب میں ان کے دفتر میں گئی۔ ان کا دروازہ اکثر بند رہتا تھا۔ میں انے اپنا پیج دکھانے گئی تھی۔ انھوں نے میرے کام کی تعریف کی اور اچانک مجھے کِس کرنے لگے۔ میں شرم سے لال ہو گئی اور الجھن کے ساتھ باہر نکلی۔ میری دوست آج بھی مجھے بتاتی ہے کہ اس دن میرا چہرہ کیسا ہو گیا تھا۔ جب اس نے پوچھا کہ کیا ہوا؟ میں نے فوراً اسے پوری بات بتا دی۔‘‘

پلّوی اس واقعہ کے بعد کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ بھی لکھتی ہیں کہ ’’کچھ مہینوں بعد دوسرا واقعہ تب ہوا جب مجھے میگزین کے لانچ کے لیے ممبئی بلایا گیا تھا۔ انھوں نے تاج ہوٹل کے اپنے کمرے میں مجھے میگزین کے ڈیزائن کو دیکھنے کے لیے بلایا۔ جب انھوں نے یہاں دوبارہ مجھے کِس کرنے کی کوشش کی تو میں نے انھیں دھکا دے دیا۔ انھوں نے میرے چہرے پر کھرونچ بھی لگا دی۔ میں روتے ہوئے دوڑ کر باہر نکلی۔ اس شام میں نے کھرونچ کے بارے میں پوچھے جانے پر ایک دوست کو بتایا کہ ہوٹل میں گر گئی تھی۔ جب میں دہلی آئی تو اکبر نے مجھے دھمکی دی کہ اگر میں نے کسی طرح کی مخالفت کی تو وہ ملازمت سے نکال دیں گے۔ لیکن میں نے اخبار نہیں چھوڑا۔ میں صبح آٹھ بجے آتی تھی۔ میرا ٹارگیٹ 11 بجے تک او پی-ای ڈی پیج کو تیار کرنا رہتا تھا۔‘‘ وہ مزید لکھتی ہیں کہ ’’بمبئی والے واقعہ کے کچھ دن بعد ایک اسٹوری کرنے کے سلسلے میں مجھے دہلی سے سینکڑوں کلو میٹر دور ایک گاؤں میں جانا پڑا۔ اس اسائنمنٹ کو جے پور میں کرنا تھا۔ اکبر نے مجھے جے پور کے ہوٹل کے کمرے میں اسٹوری پر گفتگو کرنے کے لیے بلایا۔ یہاں انھوں نے میرے ساتھ عصمت دری کی۔ ہوٹل کے کمرے میں کافی دیر تک ان سے لڑی، لیکن وہ جسمانی طور پر مجھ سے مضبوط تھے۔ انھوں نے میرے کپڑے پھاڑ دیے اور میرے ساتھ زبردستی کی۔ میں پولس میں شکایت کرنے کی جگہ شرم سے بھر گئی۔ تب میں نے اس کے بارے میں کسی کو نہیں بتایا تھا۔ کیا اس وقت میرے اوپر کوئی یقین کرتا؟ میں خود کو قصوروار ٹھہرا رہی تھی۔ میں اس ہوٹل کے کمرے میں آخر کیوں گئی؟ کچھ مہینوں تک وہ مجھے جنسی اور جذباتی طور پر ہراساں کرتے رہے۔ اگر وہ مجھے کسی مرد کلیگ سے بات کرتے ہوئے دیکھ لیتے تھے تو ڈانٹ دیتے تھے۔ یہ کافی ڈراؤنا تھا۔‘‘

پلّوی نے اس سے آگے بھی بہت ساری باتیں لکھی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’’میں اکثر رپورٹنگ اسائنمنٹ دیکھتی تھی۔ میں نے دسمبر 1994 میں کرناٹک کے ایک بڑے لیڈر کا انٹرویو کیا تھا۔ اس کے بعد اکبر نے کہا تھا کہ وہ مجھے انعام کے طور پر یا تو امریکہ بھیجیں گے یا انگلینڈ۔ مجھے دونوں ملک میں کام کرنے کا ویزا مل گیا۔ میں لندن گئی۔ میں نے یہ سوچا کہ اب یہ رکنا چاہیے کیونکہ میں دہلی کے دفتر سے دور رہوں گی۔ لیکن حقیقت یہ تھی کہ وہ مجھے اس لیے دور بھیجنا چاہتے تھے کہ مجھے کسی طرح سے دفاع کا موقع نہیں مل سکے۔ یعنی جب بھی وہ شہر میں آئیں تو مجھے اپنا شکار بنا سکیں۔ لندن دفتر میں ایک بار کام کرنے کے دوران انھوں نے مجھے ایک مرد کلیگ سے بات کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا اور کافی غصہ ہوئے تھے۔ ڈیسک سے ساری چیزیں اٹھا کر پھینک دیں۔ میرے اوپر ہاتھ اٹھایا۔ میں دفتر سے بھاگ کر ایک پارک میں جا کر چھپ گئی۔ اگلے دن میں نے اپنی دوست کو اس کی جانکاری دی۔ میں جسمانی، جذباتی اور ذہنی طور پر ٹوٹ چکی تھی۔ میں جانتی تھی کہ مجھے لندن سے باہر جانا پڑے گا۔ میں نے اپنی دوست کو بتایا کہ میں اس تکلیف سے بھاگنا چاہتی ہوں۔‘‘ اس واقعہ کے بعد پلّوی کے مطابق انھوں نے ملازمت چھوڑ دی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ دن بعد انھیں نیویارک میں رپورٹنگ اسسٹنٹ کی ملازمت بھی مل گئی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 02 Nov 2018, 5:09 PM