اردو کو عوام کی زبان بنانے کی ضرورت ، صحافی ایم آئی ظاہر کا اظہار خیال

جہانگیر کے زمانے میں دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر اس زبان کی پیدائش ہونے کے باوجود اسے اسلام،ایمان اور ملت سے جوڑ دیا گیا ہے۔

فائل تصویر آئی اے این ایس
فائل تصویر آئی اے این ایس
user

یو این آئی

اردو صحافت اور ادب مشترکہ تہذیب کا سرمایہ اور ہمیں اسے بچانے کے لیے جامع منصوبے کی ضرورت ہے،ان خیالات کا اظہار معروف صحافی ایم آئی ظاہر نے کیا۔ اردو صحافت کے دوسوسالہ جشن کے موقع پر انہوں نے کہاکہ ہندوستان میں اردو زبان،ادب اور صحافت کے مستقبل پر زیادہ فکر مندی محسوس کی جارہی ہے،لیکن یہ بھی سچ ہے کہ ہر ڈوبنے والے پر ساحل کے تماشائی افسوس تو کرتے ہیں،امداد نہیں کرتےہیں۔

انہوں نے مزید کہاکہ اردو اردو چلانے والے اردو اخبار نکالنے کے لیے آگے نہیں آتے۔ اصل میں ہندوستان میں اردو کو مشترکہ تہذیب سمجھنے کی ذہنیت منہدم ہوتی جا رہی ہے‌۔ مشترکہ تہذیب کا صرف ڈرامہ ہو رہا ہے۔صرف مسجد،مدرسہ، وقف بورڈ اور مشاعروں و سیمناروں کی خبریں ہی صحافت نہیں ہیں۔ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ اردو مشترکہ تہذیب کی زبان ہے تو سبھی تہوار وں کی خبریں بڑی سرخیوں کے ساتھ شائع کی جانا چاہئیے۔


ایم آئی ظاہر نے کہاکہ اردو عرب سے نہیں آئی تھی۔ جہانگیر کے زمانے میں دہلی کی جامع مسجد کی سیڑھیوں پر اس زبان کی پیدائش ہونے کے باوجود اسے اسلام،ایمان اور ملت سے جوڑ دیا گیا ہے۔ہمیں اردو اخبارات کو مشترکہ تہذیب کا اخبار بنانا ہوگا۔

ظاہر کے مطابق ہمیں نہیں بھولنا چاہئیے کہ پورےاردو میڈیا کوہندوؤں کا شکرگزار اور احسان مند ہونا چاہیے۔منشی سدا سکھ لال،ہری دت سے لے کر نہرو،رامو جی، سنجے گپتا، جمناداس اختر،موہن چراغی،وجیے کمار چوپڑا، گوپال متل،چندربھان خیال بچن سنگھ سرل اور دیگر صحافیوں کی خدمات یاد رکھ اخبارات تجارتی کمپنیوں کے تحت ہیں جن کے مالکان غیر مسلم ہیں۔


ہمیں اردوکو عوام کی زبان بنانا ہوگا۔

ظاہر نے کہاکہ ہم اردو صحافت کے دو سو برسوں کا جشن منا رہے ہیں،لیکن اے ایم یو کے اداروں سے اردو آہستہ آہستہ ہٹ رہی ہے۔ ملت اگر یہ چاہتی ہے کہ اردو کی بقا ہو تو وہ صرف مشاعرہ کے انعقاد کو اردو کی خدمت نہ کہیں۔حیدرآباد میں آل انڈیا ریڈیو بی چینل ختم ہو گیا ہے۔مغربی بنگال اور راجستھان میں اردو ٹیچروں کے تقرر نہیں ہو رہی ہیں۔تیلنگانہ اور مہاراشٹر میں اردو اکیڈمی تشکیل نہیں ہوئی ہے۔اردو کے ایک بڑے ٹی وی چینل میں اردو برائے نام رہ گئی ہے۔ آجکل تو مشاعروں کے انعقاد پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے‌ کہ کون سا شاعر مشاعرہ میں کیا پڑھ رہا ہے۔اچھی بات یہ ہے کہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی نے جامعہ اردو کی ادیب ماہر کیے ہویے طلباء اور طالبات کو یونورسٹی میں داخلہ دینا شروع کر دیا ہے۔انہوں نے مطلع کیاکہ پیر 6،جون کو شام میں اردوادب وصحافت پر ایک آنلائن سمینارکا انعقادکیاجارہاہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔