مدارس کے بعد مسلمانوں سے وابستہ اوقاف کا سروے! ’حکومت آخر ثابت کیا کرنا چاہتی ہے؟‘

لکھنؤ کے خالد صدیقی کہتے ہیں ’’یہ جائیدادیں صرف اور صرف مسلمانوں سے وابستہ ہیں، حکومت ان کا سروے کرا کر آخر ثابت کیا کرنا چاہتی ہے۔ کیا اتر پردیش پوری طرح سے بدعنوانی سے پاک ہو چکا ہے؟‘‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آس محمد کیف

اتر پردیش کے مدارس میں کرائے جانے والے سروے پر ہنگامہ آرائی ابھی ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ یوپی حکومت کے ایک اور حکم پر نتازعہ کھڑا ہو گیا۔ یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی یوپی حکومت نے ریاست بھر میں وقف بورڈ کی جائیدادوں کے سروے کا حکم دیا ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ فوج اور ریلوے کے بعد سب سے زیادہ اراضی وقف بورڈ کے پاس ہے لیکن اس پر قبضہ کر لیا گیا ہے، وہ اسی کی تحقیقات کروا رہے ہیں۔ اس حکم کے بعد سماج وادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو نے فوری ردعمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ یوپی کی بی جے پی حکومت حساس مسائل کو چھیڑ رہی ہے، جس سے سماج کے جذبات مجروح ہو رہے ہیں۔ حکومت کی نیت اور پالیسی دونوں ہی ٹھیک نہیں۔

خیال رہے کہ صرف لکھنؤ میں ہی وقف بورڈ کے پاس ہزاروں کروڑ کی جائیدادیں ہیں۔ اتنا ہی نہیں، وقف املاک کی جانچ اور اتر پردیش میں بنجر وغیرہ عوامی املاک کا اندراج وقف کی ملکیت کے طور پر کرنے کے 1989 کے حکم نامہ کو منسوخ کر دیا گیا ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے وقف املاک کا سروے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لکھنؤ میں اس معاملہ میں سب سے زیادہ ہلچل نظر آ رہی ہے۔

لکھنؤ کے خالد صدیقی کہتے ہیں ’’یہ تمام جائیداد مسلمانوں کی ہے اور انہی نے انہیں وقف کے نام کیا ہے، حکومت ان کا سروے کرا کر آخر ثابت کیا کرنا چاہتی ہے؟ کیا اتر پردیش پوری طرح سے بدعنوانی سے پاک ہو چکا ہے؟‘‘


وقف املاک کی جانچ کے یوگی حکومت کے حکم پر اتر پردیش جمعیۃ علماء ہند کے نائب صدر مولانا فرقان قاسمی کا کہنا ہے کہ یہ سب کام غیر ضروری ہے، حکومت وہ کام نہیں کر رہی جو اسے کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یوپی میں مسائل پر بات نہیں کی جا رہی، یوپی کے اصل مسائل نوجوانوں کو روزگار اور مہنگائی ہیں لیکن ان پر بات نہ کر کے حکومت غیر ضروری مسائل پر کام کر رہی ہے۔

کچھ علمائے دین وقت املاک کے سروے کی حمایت بھی کر رہے ہیں۔ لکھنؤ کے مولانا الیاس ندوی کا کہنا ہے کہ وقف بورڈ کی جائیدادوں کا سروے ہونا چاہیے، اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ وقف اراضی پر جو بھی قبضہ ہے، اسے ہٹایا بھی جائے گا۔ سروے کر کے جو بدعنوانی ہوئی ہے، وہ بھی سامنے آئے گی۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ اگر وقف کے پاس پڑی جائیدادوں کا صحیح استعمال کیا جائے تو مسلمانوں کی حالت زار کو کافی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔

اتر پردیش سنی وقف بورڈ کے چیئرمین ظفر احمد فاروقی نے سروے کے فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ سروے ایک آئینی تقاضا ہے اور اسے بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا۔ وہیں، شیعہ وقف بورڈ کے صدر علی زیدی کا بھی کہنا ہے کہ حکومت کے اس اقدام کا خیر مقدم کیا جانا چاہئے کیونکہ پہلے وقف میں بدعنوانی عروج پر تھی اور کوئی انکوائری نہیں ہوئی تھی۔ بعض حکومتوں نے اس جائیداد پر کوئی توجہ نہیں دی۔ وقف املاک پر ناجائز قبضے ہیں جنہیں ہٹایا جانا چاہئے۔


اس معاملے میں شیعہ عالم مولانا کلب جواد کا کہنا ہے کہ وقف بورڈ کا 70 فیصد حصہ مافیا اور حکومت کے قبضہ میں ہے اور صرف 30 فیصد اراضی وقف کے پاس ہے۔ حکومت ناجائز قبضوں سے چھٹکارا پاتی ہے تو ٹھیک ہے لیکن مسلمانوں کا سروے کر کے صرف زمین دیکھ لینے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ کوئی بھی وقف اراضی کو زبردستی خالی نہیں کرا سکے گا اور اگر کوئی وہاں رہنا چاہتا ہے تو حکومت کو کرایہ لینے کے بارے میں پتہ چل جائے گا۔

وقف املاک کے سروے پر اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کی نیت پر سوال اٹھائے ہیں۔ ایس پی سربراہ اکھلیش یادو، اے آئی ایم آئی ایم کے صدر اسد الدین اویسی اور دیگر لیڈروں نے وقف املاک کی جانچ کے حکم کو غلط قرار دیا ہے۔ سماج وادی پارٹی کے ترجمان عمیق جامعی کا کہنا ہے کہ سچر کمیٹی نے کہا تھا کہ اگر حکومت وقف املاک کا کرایہ لیتی ہے تو اس رقم کو مسلمانوں کی فلاح و بہبود پر خرج کیا جائے، وقف املاک کی ایک بڑی رقم حکومت کے پاس ہے۔ اس سے قبل لینڈ مافیا کے زیر قبضہ وقف اراضی کو چھڑا کر وقف کو دیا جائے اور امام و مؤذن کی تنخواہیں دی جائیں۔ حکومت وقف املاک کے سروے کی بات کر کے اصل مسائل سے توجہ ہٹا رہی ہے۔


اے آئی ایم آئی ایم کے ترجمان عاصم وقار کا کہنا ہے حقیقت ہے کہ سروے کے نام پر مسلمانوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے اور یکطرفہ طور پر کارروائی کی جا رہی ہے۔ حکومت وقف املاک کو اپنے کنٹرول میں لینا چاہتی ہے، اس لیے غالباً سروے کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر سروے کرنا ہے تو تمام مندروں، خانقاہوں اور دیگر مذہبی مقامات کا بھی سروے کیا جائے۔ ایک برادری کے پیچھے پڑ جانے سے نیت پر سوال ہی اٹھیں گے!

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */