اتر پردیش: داڑھی رکھنے کے سبب مسلم پولس اہلکار کے خلاف کارروائی پر ہنگامہ

دارالعلوم دیوبند کے علماء نے باغپت پولس سپرنٹنڈنٹ ابھشیک سنگھ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے جنھوں نے سب انسپکٹر انتشار علی کو صرف اس لیے معطل کر دیا کیونکہ انھوں نے بغیر اجازت داڑھی رکھ لی تھی۔

تصویر آئی اے این ایس
تصویر آئی اے این ایس
user

روی پرکاش

داڑھی رکھنے کی وجہ سے باغپت سب انسپکٹر انتشار علی کے خلاف ہوئی کارروائی کے بعد مسلم طبقہ میں کافی ناراضگی دیکھنے کو مل رہی ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے علماء نے اس عمل پر غصہ کا اظہار کرتے ہوئے باغپت پولس سپرنٹنڈنٹ (ایس پی) ابھشیک سنگھ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ ابھشیک سنگھ نے ہی انتشار علی کو داڑھی رکھنے کی وجہ سے معطل کیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے علماء کا کہنا ہے کہ انتشار علی کے خلاف جو کارروائی ہوئی ہے وہ غلط ہے اور ان کی معطلی ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ایس پی کے خلاف کارروائی بھی ہونی چاہیے۔

اتحاد علمائے ہند کے قومی صدر مولانا قاری مصطفیٰ دہلوی نے اس تعلق سے کہا کہ مسلم پولس اہلکار کے خلاف تعصب کی بنیاد پر کارروائی کی گئی ہے اور اس عمل کی مذمت کی جانی چاہیے۔ انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ایس پی کے خلاف کارروائی کرے۔ کچھ علماء نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر میڈیا سے کہا کہ یہ کارروائی مذہبی منافرت کا نتیجہ ہے جسے درست نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔


واضح رہے کہ گزشتہ دنوں باغپت کے سب انسپکٹر انتشار علی کو بغیر اجازت داڑھی رکھنے کی وجہ سے معطل کر دیا گیا اور پولس لائنس بھیج دیا گیا ہے۔ میڈیا ذرائع میں آ رہی خبروں کے مطابق انتشار علی کو داڑھی ہٹانے کے لیے تین بار تنبیہ کی گئی تھی اور داڑھی بڑھانے کو لے کر اجازت لینے کے لیے بھی کہا گیا تھا، لیکن انھوں نے بغیر اجازت داڑھی کو بڑھانا جاری رکھا۔ حالانکہ جب میڈیا نے انتشار علی سے اس سلسلے میں سوال کیا تو انھوں نے کہا کہ "میں نے داڑھی رکھنے کی اجازت مانگی تھی، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔"

باغپت کے پولس سپرنٹنڈنٹ ابھشیک سنگھ کا کہنا ہے کہ پولس مینوئل کے مطابق صرف سکھوں کو داڑھی رکھنے کی اجازت ہے جب کہ دیگر سبھی پولس اہلکاروں کو چہرہ صاف ستھرا رکھنا ضروری ہے۔ ایس پی نے کہا کہ "اگر کوئی پولس اہلکار داڑھی رکھنا چاہتا ہے تو اسے اس کی اجازت لینی ہوگی۔ انتشار علی سے بار بار اجازت کے لیے کہا گیا، لیکن انھوں نے اس پر عمل نہیں کیا اور بغیر اجازت کے داڑھی رکھ لی۔"

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔