آج اعظم خان کے ہر خواب کو کچلا جا رہا ہے

اعظم خان کے جیل جانے کا معاملہ ہو، ان کی یونیورسٹی کو قبضہ میں لینے کا ہو یا حج ہاؤس کو اسپتال میں تبدیل کرنے کا معاملہ ہو، اترپردیش سے کسی بھی بڑے مسلم لیڈر یا ان کی پارٹی نے کوئی آواز نہیں اٹھائی ہے

تصویر قومی آواز
تصویر قومی آواز
user

آس محمد کیف

رام پور: دسمبر 2017 میں مظفر نگر کے ٹاؤن ہال گراؤنڈ سے خطاب کے دوران بی جے پی کے مغربی اتر پردیش کے رہنما اور وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کے قریبی سریش رانا نے کہا تھا ’’مظفر نگر فسادات کے دوران مجھے اعظم خان کے کہنے پر جیل بھیجا گیا تھا۔ جس گاڑی سے میں جیل گیا تھا اس کا نمبر آج تک مجھے یاد ہے۔ یاد رکھنا اگر آپ نے بی جے پی کی حکومت بنوائی تو اعظم خان کو اسی گاڑی سے پیشی پر بھیجا کریں گے۔‘‘ سریش رانا کے اس بیان پر خوب تالیاں بجی تھیں۔

سریش رانا کے اس بیان کو آج جو کچھ بھی اعظم خان کے ساتھ ہو رہا ہے اس تناظر میں دیکھیں تو سمجھ آ جاتا ہے کہ ان کے خلاف انتقامی کارروائی کی جا رہی ہے۔ ریاست میں بی جے پی حکومت ہے اور کمر درد کی پریشانی میں مبتلا 71 سالہ اعظم خان سیتا پور سے 240 کلومیٹر دور رام پور پولیس کی گاڑی سے عدالت میں پیشی کے لئے آتے ہیں۔ عدالت میں پیشی پر جاتے وقت اعظم خان اپنا درد بیان کرتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ ان کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔


سماج وادی پارٹی کے قدآور رہنما اعظم خان اپنی زندگی کے سب سے مشکل مرحلے میں ہیں۔ ان کے ہر خواب کو کچلا جا رہا ہے۔ انہیں ہر طرح سے پریشان کیا جا رہا ہے۔ وہ فی الحال اپنی بیمار بیوی اور بیٹے کے ساتھ سیتا پور جیل میں قید ہیں۔ یہاں انہیں وقت پر کھانا نہیں ملتا ہے اور انہیں بیت الخلا تک جانے کی اجازت نہیں ہے (اعظم خان نے خود میڈیا کو بتایا ہے)۔ ان کی رہائی جلد ہونے کی توقعات تھیں لیکن اب کوئی کا امکان نظر نہیں آتا۔ رامپور ایس پی سنتوش مشرا کو اعظم خان کی طرف نرم گوشہ رکھنے کی پاداش میں عہدے سے برطرف کیا جا چکا ہے۔

رام پور میں اعظم خان کے خلاف ایک نہیں بلکہ 85 مقدمات درج ہیں۔ ان کی اہلیہ اور بیٹے کے خلاف بھی مقدمات درج ہیں۔ اعظم خان کو لینڈ مافیا قرار دیا جا چکا ہے۔ ان کی کاوشوں سے تعمیر ہونے والے غازی آباد کے حج ہاؤس کو ’کورونا وائرس‘ سے متاثرہ لوگوں کے لئے اسپتال بنانے کا فیصلہ لیا جا چکا ہے۔یہاں تک کہ ان کی مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کو اتر پردیش کی حکومت اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کر رہی ہے۔ سماج وادی پارٹی کے قومی صدر اکھلیش یادو اعظم خان سے ملنے سیتا پور جیل پہنچے تھے ، تاہم سماج وادی پارٹی نے اب تک کسی تحریک کا اعلان نہیں کیا ہے۔


اعظم خان کے جیل جانے کا معاملہ ہو، ان کی یونیورسٹی کو قبضہ میں لینے کا معاملہ ہو یا حج ہاؤس کو اسپتال بنانے کا معاملہ ہو، اترپردیش سے کسی بھی بڑے مسلم لیڈر یا ان کی پارٹی نے کوئی آواز نہیں اٹھائی ہے۔

لکھنؤ کے خالد صدیقی کا کہنا ہے ،’’ تمام ہندوتوا وادی قوتیں اعظم خان سے بدلہ لینے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ان کے خلاف زہریلے بیانات تواتر سے دیئے جارہے تھے۔ اور آخر کار انہیں جال میں پھنسا لیا گیا ۔ یہ بات سچ ہے کہ متعدد مسلم سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ان کے تعلقات بہتر نہیں تھے ، تاہم انہیں سب کچھ فراموش کر کے ان کے حق میں کھڑا ہونا چاہئے۔ کیونکہ اعظم خان نے یونیورسٹی اور حج ہاؤس بنا کر بہتر کام کیا تھا، اس کا سب کو پاس رکھنا چاہئے۔‘‘

وہیں، سہارنپور کے سرفراز خان کے مطابق ’’ اعظم خان ایمرجنسی کے دوران جیل گئے تھے اور انہوں نے کافی جدوجہد کی تھی۔ انہیں برا وقت توڑ نہیں سکتا ۔ جو کچھ بھی اس کے ساتھ ہو رہا ہے، وہ انتقام کے احساس میں کیا جا رہا ہے ۔‘‘

اس سب کے درمیان ، 71 سالہ اعظم خان کو اب ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے عدالت میں سماعت کی اجازت دی گئی ہے۔ ان کے وکیل خلیل اللہ کے مطابق انہیں 8 معاملات میں راحت مل چکی ہے اور وہ جلد ہی باہر چلے جائیں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 10 Mar 2020, 9:41 PM