یوپی اسمبلی انتخاب: پھر سرگرم ہوئی یوگی کی ’ہندو یوا واہنی‘

مارچ 2017 میں یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد مشرقی اتر پردیش کے مختلف اضلاع میں ہندو یوا واہنی کی یونٹوں کو بی جے پی قیادت کی گزارش پر تحلیل کر دیا گیا تھا۔

یوگی آدتیہ ناتھ، تصویر یو این آئی
یوگی آدتیہ ناتھ، تصویر یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کے ذریعہ 2002 میں قائم ہندو یوا واہنی اتر پردیش اسمبلی انتخاب قریب آتے ہی پھر سے سرگرم ہو گئی ہے۔ گورکھپور میں یوگی کی جیت کے لیے اس کے اراکین نے مہم شروع کر دی ہے۔ سال 2017 میں یوگی آدتیہ ناتھ نے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد بی جے پی قیادت کی گزارش پر اس ہندو یوا واہنی کی سبھی یونٹس کو تحلیل کر دیا تھا۔

گورکھپور میں یوگی آدتیہ ناتھ کی جیت یقینی بنانے کے لیے اس کے اراکین نے کافی پہلے سے ہی ایک مہم شروع کر دی ہے۔ ہندو یوا واہنی کے جنرل سکریٹری پی کے مال نے کہا کہ واہنی کے اراکین نے گھر گھر میٹنگیں، ڈیجیٹل میٹنگیں منعقد کرنے اور اسمبلی حلقہ میں بوتھ سطح پر اپنی تنظیم کو مضبوط کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یوگی کے گورکھپور پہنچنے پر انتخابی پالیسی اور تشہیر کو لے کر عہدیدار ان کے ساتھ میٹنگ کریں گے۔


ہندو یوا واہنی کے ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ واہنی کی سیاسی سرگرمیں تقریباً پانچ سالوں سے بند تھیں، لیکن شہر کی سیٹ سے یوگی آدتیہ ناتھ کی امیدواری کے اعلان کے ساتھ تنظیم پھر سے سرگرم ہو گئی ہے۔ تنظیم سبھی وارڈوں میں میٹنگیں کرے گی اور وزیر اعلیٰ کی ہدایت پر دیگر اسمبلی حلقوں میں بی جے پی امیدواروں کے لیے تشہیر بھی کرے گی۔

ہندو یوا واہنی نے 2004، 2009 اور 2014 میں یوگی آدتیہ ناتھ کی انتخابی مہموں میں اہم کردار نبھائی تھی اور مشرقی اتر پردیش کے دیہی علاقوں میں ہندوتوا کے پیغام کی تشہیر بھی کی تھی۔ 2017 کے اسمبلی انتخاب میں واہنی لیڈر راگھویندر پرتاپ سنگھ نے سدھارتھ نگر کی ڈمریا گنج سیٹ سے کامیاب الیکشن لڑکا تھا۔


مارچ 2017 میں یوگی آدتیہ ناتھ کے وزیر اعلیٰ بننے کے بعد مشرقی اتر پردیش کے مختلف اضلاع میں واہنی کی یونٹوں کو بی جے پی قیادت کی گزارش پر اس خوف سے تحلیل کر دیا گیا تھا کہ یہ ایک یکساں سیاسی تنظیم کی شکل میں نہ کام کرنے لگے۔ اس قدم کی مخالفت کرنے والے اس کے عہدیداروں اور اراکین کو اس سے معطل کر دیا گیا تھا۔ اس میں اس وقت کے ریاستی صدر سنیل سنگھ بھی شامل تھے۔

اسمبلی انتخاب میں ٹکٹ تقسیم کو لے کر نااتفاقیوں کے سبب بی جے پی کے ساتھ رشتوں میں تلخی آنے کے بعد یوگی آدتیہ ناتھ نے 2002 میں ہندو یوا واہنی کو کھڑا کیا تھا۔ انھوں نے بی جے پی امیدوار شیو پرتاپ شکلا کے خلاف ہندو مہاسبھا کے ٹکٹ پر ڈاکٹر رادھا موہن داس اگروال کو میدان میں اتار کر بی جے پی قیادت کو چیلنج پیش کیا۔ اگروال نے شکلا کو ہرایا اور آدتیہ ناتھ کو مشرقی اتر پردیش کے بلاتنازعہ لیڈر کی شکل میں قائم کیا۔


اس کے بعد جلد ہی ہندو یوا واہنی سویم سیوکوں کو یوگی آدتیہ ناتھ کی صدارت میں گورکھ نتھ مٹھ کے ذریعہ مشتہر ہندوتوا ایجنڈے کی تشہیر کا کام بھی سونپا گیا۔ سال 2002 میں 300 اراکین سے 2017 میں تنظیم کی طاقت بڑھ کر 15 لاکھ ہوگئی۔

گزشتہ پانچ سالوں میں واہنی نے سماجی ایشوز پر توجہ مرکوز کی اور اس نے سیاسی سرگرمیوں سے اپنے قدم پیچھے کر لیے تھے۔ اس کی سماجی سرگرمیوں میں راشن تقسیم، کووڈ اور دیگر بیماریوں کے بارے میں بیداری پیدا کرنا، مہاجر مزدوروں کی مدد کرنا اور ترقیاتی اور فلاحی منصوبوں کی عمل آوری میں مقامی افسران کی مدد کرنا شامل ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔