یوپی انتخاب: مراد آباد میں باحجاب خواتین کی بڑی تعداد نے کیا حق رائے دہی کا استعمال

رائے دہندگان کا کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں ترقیاتی کاموں کا فقدان رہا، امید ہے کہ نئی حکومت صوبے کی ترقی و عوام کی خوشحالی کے لئے کچھ نہ کچھ کرے گی۔

مراد آباد میں باحجاب خواتین حق رائے دہی کا استعمال کرتے
مراد آباد میں باحجاب خواتین حق رائے دہی کا استعمال کرتے
user

ناظمہ فہیم

مراد آباد: دوسرے مرحلے کے 9 اضلاع میں 55 اسمبلی حلقوں کے لئے ووٹ ڈالے گئے۔ ووٹنگ کے لئے ہر بوتھ پر صبح سے ہی حجاب پہنے خواتین کی لمبی قطاریں دکھائی دیں۔ برقع پوش خواتین نے ووٹ کے ذریعہ یہ باور کرایا کہ حجاب پہن کر بھی ہم اپنی ذمہ داری نبھا سکتے ہیں۔ بزرگوں، معذوروں و نوجوانوں نے بھی ووٹ ڈالنے میں خاصی دلچسپی دکھائی۔ ان رائے دہندگان میں خاصہ جوش دکھائی دیا جنہوں نے پہلی بار اپنے ووٹ کا استعمال کیا۔ جی آئی سی میں ووٹ ڈال کر باہر آتی طالبات کا کہنا تھا کہ ہمیں بڑی خوشی ہے کہ ہم بھی حکومت سازی میں حصہ دار بنیں گے۔ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان طالبات کا کہنا تھا کہ ہم نے ایسی پارٹی کو ووٹ دیا ہے جس کے منشور میں صحت مراکز کی جدید کاری کرنا، تعلیمی معیار کو بلند کرنا اور ٹوٹی سڑکوں کی تعمیر و صاف صفائی کے نظام کو درست رکھنا، قانون کی بالادستی پر عمل درآمد کرنا خواتین کو خود مختار بنانا، نوجوان طبقہ کی یہی اہم ضرورت ہے۔ ان طالبات کے مطابق غیر ضروری مدعے کوئی معنی نہیں رکھتے۔

جی آئی سی کے تعلق سے ان طالبات کا کہنا تھا کہ اتنے بڑے سرکاری تعلیمی ادارے کا یہ حال ہے کہ یہاں کھنڈر کے علاوہ کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ بیت الخلاء تک ٹھیک و صاف ستھرے نہیں ہیں جبکہ دعویٰ یہ کیا جاتا ہے کہ صوبے بھر میں کونے کونے پر بیت الخلاء تعمیر کرائے گئے ہیں۔ جہاں ایک طرف مراد آباد کی سبھی چھ اسمبلی سیٹوں پر ووٹ ڈالنے کا عمل شروع ہوا اور صبح سے ہی لوگ اپنے کام کاج چھوڑ کر لائنوں میں لگے نظر آئے۔


کندرکی حلقہ کے گاؤں نگلہ جٹنی میں لوگوں نے حق رائے دہی کے استعمال سے انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ گاؤں میں جانے والا راستہ گارے سے بھرا ہوا ہے، اس راستے پر اسکول، مسجد اور مندر بھی ہے جہاں پہونچنے میں راہگیروں کا بڑی پریشانی کا سامنا ہے۔ اس لئے گاؤں کا کوئی بھی فرد چاہے وہ کسی بھی مذہب و برادری سے تعلق رکھتا ہو تب تک ووٹ نہیں کرے گا جب تک افسران آکر ہمارے مطالبات کو نہیں مانیں گے۔ سیاسی لیڈران پر ہمیں کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ یہ خبر ملنے کے بعد ضلع افسران میں افراتفری مچ گئی اور سیکٹر مجسٹریٹ موقع پر پہونچے۔ گاؤں کے لوگوں کو سمجھا کر ووٹ ڈالنے کے لئے راضی کیا۔

یوپی انتخاب: مراد آباد میں باحجاب خواتین کی بڑی تعداد نے کیا حق رائے دہی کا استعمال

ضلع مجسٹریٹ شیلیندر کمار نے بھی اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ اس معاملے کو حل کر لیا گیا ہے اور سب لوگ ووٹ ڈالنے کے لئے تیار ہیں۔ یونیورسٹی تعمیری مشن سے جڑے ذمہ داران نے سبھی سیاسی پارٹیوں سے اختلاف جتاتے ہوئے NOTA کا استعمال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ مراد آباد میں سرکاری یونیورسٹی و میڈیکل کالج کا مطالبہ برسوں سے چلا آ رہا ہے۔ ڈویژن ہونے کے باوجود مراد آباد ان اہم اداروں سے محروم ہے اور اس کے لئے کانگریس، سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی و بی جے پی سب کی سب حکومتیں ذمہ دار ہیں۔


محمد تنظیم شاستری ایڈووکیٹ، شبھم کشیپ، سکندر علی خاں، شاکر حسین، جگ رام سنگھ، افشاں پروین، راجیو ترویدی و ان کے دیگر ساتھیوں کا کہنا تھا کہ حکومت سازی کے بعد اگر نو تشکیل حکومت نے اس طرف کوئی دھیان نہیں دیا تو ہمارا یہ احتجاج آئندہ انتخابات میں بھی چلتا رہے گا۔ حق رائے دہی کا عمل پرسکون گزرے اس کے لئے ضلع و پولیس انتظامیہ نے سخت خفاظتی بندوبست کئے۔ ضلع کے ہر بوتھ سینٹر کو چھاؤنی میں تبدیل رکھا تاکہ کسی طرح کی کوئی بدنظمی نہ ہو۔ سیکٹر مجسٹریٹ کے ساتھ ساتھ ڈی ایم و پولیس کپتان بھی پوری طرح سے مستعد دکھائی دیئے۔ معمولی کہا سنی کے علاوہ کوئی بھی بڑی واردات سامنے نہیں آئی۔

تھانہ مغل پورہ حلقہ کے مراد آباد انٹر کالج پر ووٹ ڈالنے آئے ایک شخص پر لاٹھی چلانے کی شکایت ڈیوٹی کر رہے پولیس اہلکار کے خلاف آئی جس کو فوری طور پر افسران نے موقع پر پہونچ کر حل کر لیا۔ کئی بوتھوں پر سست روی کی شکایتیں بھی سامنے آئی ہیں۔ تاج پور مافی، ٹھاکر دوارہ، کندرکی میں چند خراب مشینوں کو بدلنے و VVPAT تبدیل کرنے کے معاملے بھی سامنے آئے۔ کچھ لوگوں کی یہ بھی شکایت رہی کہ ان کے ووٹ کسی اور نے ڈال دیئے۔ رائے دہندگان سے معلومات کی گئی تو بیشتر نے یہی کہا کہ انہوں نے ترقیاتی کاموں کی بنیاد پر ووٹ کیا ہے اور اسی پارٹی کے امیدوار کو ووٹ کیا ہے جو اقتدار میں آنے کے بعد ترقیاتی کام کو ترجیح دے۔ ان رائے دہندگان کا کہنا تھا کہ گزشتہ پانچ سالوں میں ترقیاتی کاموں کا فقدان رہا، نئی حکومت صوبے کی ترقی و عوام کی خوشحالی کے لئے کچھ نہ کچھ کرے گی۔ ایسا ہمارا یقین ہے۔ کچھ رائے دہندگان نے بدلاؤ کی بات بھی کہی۔ ترقیاتی مدعوں کے علاوہ کوئی بھی اور بات نہیں چلی۔ دوسرے مرحلے کی ووٹنگ کے بعد انتخابی میدان میں اترے امیدواروں کی قسمت مشینوں میں بند ہو گئی۔ 10 مارچ کو ہی معلوم ہوگا کہ عوام نے کس کے سر پر کامیابی کا تاج پہنایا ہے۔ شام 6 بجے تک ووٹنگ فیصد 66.76 رہا۔ مراد آباد ڈویژن کے سبھی اضلاع میں ووٹنگ کے دوران کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ سامنے نہیں آیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */