جب تک جموں و کشمیر کو دوبارہ ریاست کا درجہ نہیں ملتا، انتخاب نہیں لڑوں گا: عمر عبداللہ

جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ "میں اس ریاست کی اسمبلی میں لیڈر کے طور پر 6 سال کے لیے رہا۔ اب میں اس ایوان کا رکن نہیں بنوں گا جس نے ہمیں بے گھر کر دیا۔"

جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ
جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ
user

تنویر

جموں و کشمیر کا ریاست کا درجہ ختم ہو چکا ہے اور اس وقت وہ مرکز کے ماتحت علاقہ ہے۔ اس تعلق سے جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے لیڈر عمر عبداللہ نے ایک بڑا بیان دیا ہے۔ انھوں نے اعلان کیا ہے کہ جب تک جموں و کشمیر کو ریاست کا درجہ دوبارہ نہیں حاصل ہو جاتا، وہ انتخاب نہیں لڑیں گے۔ عمر عبداللہ نے واضح لفظوں میں کشمیر سے دفعہ 370 ہٹائے جانے کی مخالفت بھی کی ہے اور کہا ہے کہ مودی حکومت کا یہ فیصلہ بے عزت کرنے والا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ گزشتہ سال اگست ماہ میں ہی جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ختم کر دیا گیا تھا اور اس کے بعد ریاستی درجہ ختم کرتے ہوئے جموں و کشمیر کو مرکز کے ماتحت علاقہ بنا دیا گیا تھا۔ ان فیصلوں کے درمیان عمر عبداللہ سمیت جموں و کشمیر کے سرکردہ لیڈروں، مثلاً سابق وزرائے اعلیٰ فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی وغیرہ کو بھی نظر بند کر دیا گیا تھا۔ عمر عبداللہ اور فاروق عبداللہ سمیت کئی لیڈروں کی نظر بندی تو ختم ہو چکی ہے لیکن محبوبہ مفتی و دیگر کچھ کشمیری لیڈروں کی نظربندی ہنوز برقرار ہے۔


بہر حال، اب جب کہ کشمیر سے دفعہ 370 ہٹائے جانے کے ایک سال مکمل ہونے والے ہیں، انگریزی روزنامہ 'انڈین ایکسپریس' میں عمر عبداللہ کا ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ اس میں مضمون میں انھوں نے لکھا ہے کہ "میں اس ریاست کی اسمبلی میں لیڈر کے طور پر 6 سال کے لیے رہا۔ اب میں اس ایوان کا رکن نہیں بنوں گا جس نے ہمیں بے گھر کر دیا۔" نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ انھیں اور ان کی پارٹی کو اس بات کا احساس تھا کہ بی جے پی دفعہ 370 اور 35 اے ہٹانا چاہتی تھی، لیکن ریاست کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کر مرکز کے ماتحت علاقہ بنا دیا جائے گا، اس کی قطعی امید نہیں تھی۔

عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ جموں و کشمیر کا ریاستی درجہ ختم کرنے کا مرکزی حکومت کا فیصلہ حیران کرنے والا تھا۔ حکومت کا یہ قدم لوگوں کو بے عزت کرنے جیسا ہے۔ اس قدم کے پیچھے حکومت کا مقصد صرف اور صرف لوگوں کو سزا دینا تھا۔ انھوں نے اپنے مضمون میں مزید لکھا ہے کہ "اگر بودھ آبادی لداخ کو علیحدہ مرکز کے ماتحت علاقہ بنانے کا مطالبہ کر رہی تھی تو جموں کے لوگوں کے لیے ایک الگ ریاست کا مطالبہ بہت پرانا تھا۔ اگر یہ مذہب کی بنیاد پر تھا تو یہ دھیان دینا چاہیے کہ لیہہ اور کارگل مسلم اکثریتی علاقے ہیں اور کارگل کے لوگ جموں و کشمیر سے الگ ہونے کے نظریہ کی مخالفت کر رہے ہیں۔"


عمر عبداللہ نے اس بات کا بھی تذکرہ کیا ہے کہ پی ایم نریندر مودی اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا تھا کہ جموں و کشمیر سے دفعہ 370 ہٹانے کے بعد کچھ وقت کے لیے اسے مرکز کے ماتحت علاقہ بنایا جائے گا اور یہ مکمل ریاست کا درجہ کسی وقت بحال ہو جائے گا۔ حالانکہ اس کو لے کر ابھی تک کوئی ٹائم لائن نہیں دیا گیا ہے جس پر انھوں نے مایوسی کا اظہار کیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 27 Jul 2020, 2:11 PM