’سینگر کو نکالنے میں بی جے پی نے بہت دیر کر دی‘، اناؤ متاثرہ کی ماں کا چھَلکا درد

اناؤ واقعہ کی شکار لڑکی کی ماں نے بی جے پی پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے اپنے رکن اسمبلی سینگر کو نکالنے میں بہت دیر کر دی۔ ساتھ ہی انھوں نے اپنی بیٹی کا علاج فی الحال لکھنؤ میں ہی کرانے کی بات کہی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

اناؤ عصمت دری واقعہ کی شکار لڑکی کا علاج اس وقت لکھنؤ کے کے جی ایم یو اسپتال میں چل رہا ہے۔ گزشتہ دنوں وہ ایک سڑک حادثہ میں بری طرح زخمی ہو گئی تھی جس کے بعد کے جی ایم یو میں اسے اسپتال کے لیے داخل کرایا گیا۔ اس درمیان متاثرہ لڑکی کی ماں کا بیان آیا ہے کہ وہ فی الحال اپنی بیٹی کا علاج لکھنؤ میں ہی کرانا چاہتی ہیں اور دہلی جانے کا ارادہ نہیں ہے۔ انھوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ’’اگر یہاں کے ڈاکٹر جواب دے دیں گے تو ہم دہلی جانے کے بارے میں سوچیں گے۔‘‘

متاثرہ کی ماں نے بی جے پی رکن اسمبلی کلدیپ سنگھ سینگر پر پارٹی کی کارروائی پر اپنا رد عمل بھی میڈیا کے سامنے ظاہر کیا۔ انھوں نے کہا کہ بی جے پی نے یہ قدم اٹھانے میں بہت دیر کر دی، اسے چاہیے تھا کہ یہ کارروائی بہت پہلے کرتی۔ قابل غور ہے کہ سینگر کو پارٹی سے نکالنے کا مطالبہ دو سال سے متاثرہ کنبہ، اپوزیشن پارٹیاں اور سماجی تنظیمیں کر رہی تھیں، لیکن گزشتہ جمعرات کو بی جے پی نے رکن اسمبلی سینگر کو پارٹی سے نکالنے کا فیصلہ سنایا۔


واضح رہے کہ عصمت دری کا معاملہ سامنے آنے کے بعد بی جے پی بالکل خاموش تھی اور کلدیپ سینگر کے خلاف کچھ بھی کارروائی نہیں کر رہی تھی۔ اتر پردیش کی یوگی حکومت بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی۔ جب متاثرہ نے لکھنؤ میں خودسوزی کی کوشش کی اور الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اس معاملے میں حکم صادر کیا، تب ملزم بی جے پی رکن اسمبلی کی گرفتاری عمل میں آ سکی۔

کلدیپ سنگھ سینگر پر عصمت دری کا الزام لگانے والی متاثرہ اپنی فیملی اور وکیل کے ساتھ رائے بریلی جیل میں اپنے چچا سے مل کر 28 جولائی کو کار سے گھر لوٹ رہی تھی جب این ایچ-32 پر گربخش گنج تھانہ علاقہ کے اٹورا گاؤں کے پاس کار کو ٹرک نے ٹکر مار دی تھی۔ حادثے میں متاثرہ کی چچی اور موسی کی موت ہو گئی تھی جب کہ متاثرہ اور اس کے وکیل کی حالت نازک بنی ہوئی ہے۔ دونوں کے جی ایم یو اسپتال میں داخل ہیں۔ واقعہ کے بعد متاثرہ کی فیملی نے سینگر پر الزام عائد کیا کہ سڑک حادثہ کے پیچھے اسی کا ہاتھ تھا۔ اس سلسلے میں سی بی آئی کی جانچ جاری ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 02 Aug 2019, 1:10 PM