اناؤ بن چکا ہے ’ریپ کیپٹل‘، اس سال اب تک عصمت دری کے 86 معاملے درج

اناؤ اتر پردیش کا وہ ضلع ہے جہاں سے ریاست کے وزیر قانون اور اسپیکر کا تعلق ہے۔ یہ ضلع دھیرے دھیرے ’ریپ کیپٹل‘ بنتا جا رہا ہے اور پولس انتظامیہ و نظامِ انصاف خاموش تماشائی ہے!

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

اناؤ ضلع، اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ سے کوئی 63 کلو میٹر دور ایک جگہ ہے۔ اس کی شناخت اب ’ریپ کیپٹل‘ کی شکل میں ہونے لگی ہے۔ اس سال جنوری سے نومبر کے درمیان اناؤ میں عصمت دری کے 86 معاملے درج ہوئے ہیں۔ تقریباً 30 لاکھ کی آبادی والا اناؤ راجدھانی لکھنؤ سے ایک گھنٹے اور صنعتی شہر کانپور سے محض نصف گھنٹے کی دوری پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس سال کے پہلے گیارہ مہینوں میں عصمت دری کے 86 معاملے کے علاوہ اس ضلع میں جنسی استحصال کے بھی 185 کیس درج ہوئے ہیں۔

عصمت دری سے متعلق اہم معاملوں میں اناؤ کا تازہ معاملہ تو اس مظلوم کا ہی ہے جس نے گزشتہ رات دہلی کے صفدر جنگ اسپتال میں دم توڑ دیا، لیکن سب سے زیادہ بدنامی اس شہر کی سا کیس میں ہوئی ہے جس میں بی جے پی رکن اسمبلی کلدیپ سینگر اہم ملزم ہیں۔ اس کے علاوہ ضلع کے اسوہا، ایگن، ماکھی اور بانگر مئو میں سب سے زیادہ عصمت دری کے معاملے سامنے آئے ہیں۔


حیرانی کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر کیسوں میں ملزم یا تو ضمانت پر چھوٹے ہوئے ہیں یا پھر پولس کے مطابق فرار ہیں۔ مقامی لوگ ان حالات کے لیے پوری طرح سے پولس کو ذمہ دار مانتے ہیں جو ملزمین کے ساتھ سانٹھ گانٹھ کر کے تفریق آمیز رویہ اختیار کرتی ہے۔ اجگین کے باشندہ راگھو شکلا بتاتے ہیں کہ ’’اناؤ میں پولس پوری طرح سے پالیٹیسائز ہو چکی ہے، یعنی سیاسی طور پر بری طرح متاثر ہو چکی ہے۔ جب تک انھیں اپنے سیاسی آقاؤں سے اشارہ نہیں ملتا، وہ ایک انچ بھی ہلنے کو تیار نہیں ہیں، اسی سے ملزمین کے حوصلے بلند ہو رہے ہیں۔‘‘

قابل غور ہے کہ اتر پردیش کے کچھ اہم سیاستداں اناؤ سے آتے ہیں۔ ان میں اتر پردیش اسمبلی کے اسپیکر ہردے نارائن دیکشت، اتر پردیش کے وزیر قانون برجیش پاٹھک اور بی جے پی رکن پارلیمنٹ ساکشی مہاراج کے نام اہم ہیں۔


ایک مقامی وکیل کا کہنا ہے کہ ’’یہاں جرائم پر سیاست کا ملمع چڑھا ہے۔ لیڈران اپنی سیاسی رنجش کے لیے جرائم کا استعمال کر رہے ہیں اور پولس ان کی کٹھ پتلی بنی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ جب کسانوں نے ایک نئی ٹاؤن شپ کے لیے زمین کے لیے تحریک چلائی تھی، تو اس وقت بھی پولس خاموش تھی۔ ایک بھی معاملہ ایسا نہیں ہے جس میں پولس نے کوئی سخت کارروائی کی ہو۔‘‘

بی جے پی رکن اسمبلی کلدیپ سینگر کا نام جس عصمت دری واقعہ سے جڑا ہوا ہے، وہ تو اس کی مثال ہی ہے۔ جب متاثرہ نے معاملے کی شکایت درج کرائی تو تقریباً 9 مہینے تک تو اس پر کوئی کارروائی ہی نہیں ہوئی۔ آخر تنگ آ کر متاثرہ نے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی رہائش کے باہر خودسوزی کی کوشش کی۔ اس دوران متاثرہ کے والد کو گرفتار کر لیا گیا اور ملزم رکن اسمبلی کے بھائی نے اسے پولس حراست میں ہی اتنا پیٹا کہ اس کی موت ہو گئی۔


میڈیا کے دباؤ میں آخر کلدیپ سینگر اور اس کے بھائی کی گرفتاری تو ہو گئی، لیکن متاثرہ اور اس کی فیملی کی سیکورٹی کو لے کر پولس کی لاپروائی اس وقت سامنے آ گئی جب اس سال جولائی میں متاثرہ اور اس کے وکیل کو ایک ٹرک سے کچلنے کی کوشش کی گئی۔ اس واردات میں متاثرہ کے دو رشتہ داروں کی موت ہو گئی جب کہ متاثرہ اور اس کا وکیل بری طرح زخمی ہوئے تھے۔ ایسا ہی معاملہ اناؤ کی دوسری متاثرہ کے ساتھ ہوا جسے کوئی سیکورٹی نہیں دی گئی اور نتیجتاً ضمانت پر چھوٹے ملزمین نے اسے زندہ جلانے کی کوشش کی اور آخر کار اس نے دم توڑ دیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔