’غنڈا راج‘ بنام ’نئی ہوا اور نئی سپا‘

سماج وادی پارٹی اتحاد جس بنیاد پر اس انتخابی میدان میں اترا ہے اگر اتحاد کا پیغام عوام میں صحیح طور پر پہنچ جاتا ہے تواس مرحلے میں بھی اتحاد حاوی رہے گا۔

اکھلیش یادو اور شیوپال یادو
اکھلیش یادو اور شیوپال یادو
user

ناظمہ فہیم

تیسرے مرحلے میں جہاں بی جے پی اپنے حاصل کر دہ وقار کو بچانے میں لگی ہے وہیں سماج وادی پارٹی کی بھی کوشش ہے کہ وہ ایک بار پھر اس علاقے میں اپنی حکوت قائم کرے۔ اکھلیش یادو و شیو پال یادو کا اتحاد بی جے پی کے لئے اس علاقے میں بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ بی جے پی جہاں سماج وادی پارٹی کو غنڈہ راج کے مدعے پر گھیرتے ہوئے عوام کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتی ہے، وہیں اکھلیش یادو نے بھی ’نئی ہوا اور نئی سپا‘ کا نعرہ دیا ہے، ساتھ ہی انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں کہا ہے کہ جرائم پیشہ افراد کا ووٹ ہمیں نہیں چاہئے۔

کانپور سے لگے چار اضلاع قنوج، فروخ آباد، اٹاوہ اور اوریہ اضلاع کی 13 سیٹوں میں سے 11 پر بی جے پی کا قبضہ ہے، جبکہ 2 سماج وادی پارٹی کے پاس ہیں۔ بی ایس پی اور کانگریس کا 2017 میں ان سیٹوں پر کھاتہ نہیں کھلا تھا۔ حالانکہ اس علاقے میں دلت ووٹ کی بھی بڑی تعداد ہے اور بی ایس پی بھی کئی سیٹوں پر قابض رہی ہے۔ تجزیہ نگاروں کی مانیں تو اس بار بی ایس پی بڑی خاموشی سے انتخابی میدان میں اتری ہے اور اس نے بھی اس علاقے میں اپنی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے کوششیں کی ہیں۔


گزشتہ اسمبلی انتخابات میں 22 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے باوجود بی ایس پی کو کل 19 سیٹیں حاصل ہوئی تھیں جس کے بعد بی ایس پی کے ایم ایل اے بڑی تعداد میں ایس پی و بی جے پی میں شامل ہو گئے تھے۔ وفاداروں کے طور پر محض ان کی تعداد چار رہ گئی ہے۔ مایا وتی نے اس محاذ کے کمزور ہونے کے بعد نئے لوگوں کو جگہ دی ہے اور دوسری پارٹیوں سے ٹکٹ حاصل نہ کر نے والے لیڈران پر داؤں لگایا ہے تاکہ وہ اپنی طاقت بڑھا سکے۔ تیسرے مرحلے میں بی ایس پی کو بھی خاصی امیدیں ہیں۔

ان اضلاع میں مسلم آبادی کی بات کریں تو قنوج میں 16.54 فیصد، فرخ آباد میں 14.69، اٹاوہ میں 7.20 اور اوریہ میں 7.39 فیصد آبادی ہے۔ اس لئے کہا جاسکتا ہے کہ مسلمان اس علاقے میں نتائج پر کہیں بھی برائے راست اثر انداز نہیں ہوسکتے، لیکن یادو و دیگر پسماندہ ذاتوں کے ساتھ ان کا اتحاد کسی کو بھی طاقت دے سکتا ہے۔ ان علاقوں میں بھی موجودہ حکومت سے ناراضگی کی اطلاعات مل رہی ہیں، اگر یہی سلسلہ بر قرار رہا تو بی جے پی کو بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔


چھرا مئو (محفوظ) سیٹ سے پولیس سروس سے وی آر ایس لینے والے کانپور کے سابق پولس کمشنر بی جے پی کے ٹکٹ پر میدان میں ہیں، ان کا مقابلہ سماج وادی کے موجود رکن اسمبلی انل کمار، بی ایس پی کے سمر جیت سنگھ اور کانگریس کی ونیتا دیوی سے ہے۔ یہاں دلت ووٹر تقریباً ایک لاکھ ہیں اور مسلم 65 ہزار ہیں، برہمن اور یادو 45-45 ہزار اور لو دھا 30 ہزار، کشواہا 40 ہزار ہیں۔ دلت ووٹر اگر بی ایس پی کی طرف جاتا ہے اور مسلم ووٹر اس کے ساتھ ہو جاتا ہے تو یہاں بی ایس پی کو طاقت ملے گی، مگر جس طرح سے او بی سی ووٹ ایک جٹ ہو رہا ہے اگر اس کے ساتھ مسلم ووٹ جاتا ہے تو پھر سماج وادی پارٹی کی کامیابی اس سیٹ پر یقینی ہے۔

تروا سے بی جے پی کے موجودہ ایم ایل اے کیلاش سنگھ راجپوت، سماج وادی کے انل کمار پال، بی ایس پی کے اجے کمار ورما، کانگریس کی نیلم میدان میں ہیں۔ اس سیٹ پر سب سے زیادہ تعدد لودھا ووٹروں کی ہے جو ایک لاکھ بیس ہزار ہے۔ چھتری 45 ہازار، پال 40 ہزار اور ایس سی تقریباً 35 ہزار ہیں۔ چھپرا مئو میں یادو 90 ہزار، مسلم 65 ہزار، بر ہمن 60 ہزار، کشواہا 55 ہزار اور ایس سی 55 ہزار ہیں۔ اس بار یہاں مسلم یادو فیکٹر نتیجے تبدیل کرنے کی حالت میں ہے۔ فرخ آباد کی چار نشستیں ہیں جن پر بی جے پی کا قبضہ ہے۔ یہاں برہمن تقریباً 65 ہزار، مسلم 55 ہزار، ایس سی 32 ہزار، ویشیہ 30 ہزار اور یادو 25 ہزار ہیں۔ امرت پور سیٹ پر بھی 70 ہزار یادو، شاکیہ 65 ہزار، برہمن 32 ہزار، چھتریہ، لودھ و ایس سی اور مسلم تقریباً 30-30 ہزار ہیں۔


قائم گنج (محفوظ) سیٹ پر یادو 75 ہزار، لودھی 45 ہزار، کرمی 40ہزار، ویشیہ ایس سی اور مسلم 35-35 ہزار ہیں۔ برہمن اور شاکیہ 30 -30 ہزار ہیں۔ اٹاوہ میں تین اسمبلی سیٹیں ہیں، اٹاوہ میں برہمن 55 ہزار، یادو 48 ہزار، شاکیہ و کشواہا کاچھی 42 ہزار، مسلم 35ہزار، پال و بگھیل 30 ہزار اور جاٹو 40 ہزار ہیں۔ بھرتھنا (محفوظ) پر یادو ووٹر سب سے زیادہ 65 ہزار ہیں، جاصو 55 ہزار، بر ہمن 45 ہزار، شاکیہ کشواہا کاچھی 25-25 ہزار، چھتریہ 22 ہزار، ویشیہ 18 ہزار، مسلم اور پال25 -25 ہزار ہیں۔ جسونت نگر سیٹ پر یادو تقریباً ایک لاکھ چالیس ہزار، ایس سی 77 ہزار، شاکیہ کشواہا اور کاچھی 45-45 ہزار اور برہمن 18 ہزار ہیں۔ اور یہاں کی صدر سیٹ پر یادو تقریباً 55 ہزار، جاٹو 46 ہزار، لودھی 39 ہزار، شاکیہ 30 ہزار اور مسلم 30 ہزار ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر ذاتوں کی معمولی نمائندگی ہے، اوریہ (محفوظ) سیٹ پر جاٹو تقریباً 66 ہزار، بر ہمن 37 ہزار، مسلم 27 ہزار، چھتریہ 25 ہزار اور یادو تقریباً 16 ہزار ووٹر ہیں۔

دیبا پور سیٹ پر ایس سی تقریباً77 ہزار، لودھی 38 ہزار، یادو 36 ہزار، ویشیہ 18 ہزار، برہمن 16 ہزار، چھتریہ 16 ہزار، پال و مسلم 16-16 ہزار ہیں۔ ان سبھی 13 سیٹوں کے اعداد وشمار سے صاف ظاہر ہے کہ سماج وادی پارٹی اتحاد جس بنیاد پر اس انتخابی میدان میں اتری ہے اگر وہ اس کے حق میں جاتا تو اس مرحلے میں بھی اتحاد حاوی رہے گا۔ بی جے پی 2017 کی طر ز پر اگر کامیاب ہوتی ہے تو وہ اپنے اقتدار تک پہنچنے میں کچھ حد تک ضرور کامیاب رہے گی۔ ان سبھی سیٹوں پر دلت ووٹرں کی تعداد بھی اس حیثیت میں ہے کہ اگر انہیں دوسری برادریوں کے ووٹروں کا سہارا مل جاتا ہے تو تیسرا مرحلہ ان کے لئے بھی اطمینان بخش ثابت ہو سکتا ہے۔ کانگریس بھی اپنے پرانے روایتی ووٹ کو حاصل کرنے کے لئے جی توڑ محنت میں لگی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔