بجٹ 2022: نہ آج کی پریشانیوں کا حل، نہ مستقبل کا کوئی منصوبہ، مودی حکومت نے برباد کر دیئے ملک کے 8 سال

بی جے پی نے 2014 میں اچھے دنوں کا وعدہ کیا تھا، لیکن گزشتہ آٹھ سال میں اس حکومت نے مزدور اور متوسط طبقہ کو سوائے تکلیف دینے کے کچھ اور نہیں کیا۔

نرملا سیتا رمن، تصویر یو این آئی
نرملا سیتا رمن، تصویر یو این آئی
user

راہل پانڈے

8 سال قبل وزیر اعظم نریندر مودی ملازمتوں کی بات کرتے تھے۔ کہتے تھے ہر سال کروڑوں نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی اور نوجوانوں کو نئے مواقع ملیں گے۔ لیکن آج آٹھ سال بعد مودی حکومت اس بات کو ماننے کو بھی تیار نہیں ہے کہ بے روزگاری کا بڑا حیوان ہمارے سامنے کھڑا ہے۔

ہندوستان پہلے سے ہی پالیسی پر مبنی غلط فہمی میں مبتلا رہا ہے، ایسے میں 23-2022 کے بجٹ کا پیش ہونا نہ ہونا ایک جیسا ہی لگتا ہے، کیونکہ ملک کے سامنے جو معاشی مسائل ہیں، مودی حکومت نے انھیں دور کرنے کی کوئی کوشش اس بجٹ میں ظاہر نہیں کی۔ بے حد مایوس کن بجٹ میں بے روزگاری بحران کے حل کا خاکہ تو دور، بڑھتی مہنگائی اور بے قابو ہوتے گھریلو خرچوں سے نمٹنے کا بھی ویژن سامنے نہیں آیا ہے۔ انکم ٹیکس ہی نہیں، پٹرولیم مصنوعات (پٹرول-ڈیزل) پر کسی ایکسائز کٹوتی کا بھی اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ صاف ہو چکا ہے کہ وزیر مالیات کی 90 منٹ کی تقریر صرف ایک روایت کی تکمیل تھی جس سے کسی قسم کی کوئی امید نہیں کی جا سکتی۔


جیسے جیسے بجٹ کی جانکاریاں سامنے آئی ہیں، اس سے اندیشہ پیدا ہو گیا ہے کہ آنے والے دنوں میں خوردنی اشیاء اور کھاد پر ملنے والی سبسیڈی پر قینچی چل سکتی ہے۔ ساتھ ہی کچھ ایسا بھی ہو سکتا ہے جس سے عام آدمی کی زندگی مزید مشکل بھری ہو جائے۔ اشارے ملے ہیں کہ ایف سی آئی (فوڈ کارپوریشن آف انڈیا) کو منریگا کے تحت ملنے والی سبسیڈی کو 210929 کروڑ (22-2021 کے ترمیم شدہ اندازہ) سے گھٹا کر 145919.9 کروڑ کر دیا گیا ہے۔ یعنی 65 ہزار کروڑ یا تقریباً 31 فیصد کی کٹوتی۔ اسی طرح یوریا پر بھی سبسیڈی کو 75930.43 کروڑ سے گھٹا کر 63222.32 کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔

اس سے بھی بڑی فکر سود ادائیگی اور قرض مینجمنٹ کی بڑھتی قیمت ہے۔ یہ گزشتہ 8.13 لاکھ کروڑ سے بڑھ کر 9.40 لاکھ کروڑ ہو گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مجموعی خرچ جو گزشتہ سال 21.5 فیصد تھی، وہ اب بڑھ کر 23.8 فیصد ہو گئی ہے۔


لیکن سب سے بڑا سوال روزگار کا ہے۔ کچھ دنوں پہلے ہی ہزاروں نوجوانوں نے ریلوے میں بھرتی عمل کے خلاف زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا۔ دھیان دینے کی بات ہے کہ کُل 35 ہزار ملازمتوں کے لیے 1.25 کروڑ نوجوانوں نے عرضی دی تھی۔ یہ اعداد و شمار ہی روزگار کے محاذ پر بحران کا اشارہ دیتے ہیں۔ اندازہ ہے کہ آج ملک میں تقریباً 20 کروڑ ملازمتیں نہیں ہیں۔ ہماری کام کرنے والی آبادی کے حساب سے دیکھیں تو ہمیں 60 کروڑ روزگار یا ملازمتوں کی ضرورت ہے، لیکن ملک میں روزگار یا ملازمتوں سے جڑے لوگوں کی تعداد 40 کروڑ ہی ہے۔

وزیر مالیات نے اپنی تقریر میں آئندہ پانچ سال کے دوران 60 لاکھ ملازمتیں پیدا کرنے کی بات کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’پروڈکٹیویٹی پر مبنی 14 سیکٹرس میں خود کفیل ہندوستان کے ویژن کو اختیار کرتے ہوئے اچھا رِسپانس ملا ہے اور ان میں آنے والے 5 سال میں 60 لاکھ نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ ساتھ ہی آئندہ 5 سال میں 30 لاکھ کروڑ کا اضافی پروڈکشن بھی ہوگا۔‘‘


لیکن بجٹ تقریر میں ایسا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ اس ہدف کو حاصل کیسے کیا جائے گا۔ یعنی یہ اعلان بھی حکومت کے دیگر منصوبوں کی طرح ہی ہوگا جس میں سب کچھ پانچ سال میں حاصل کرنے کی بات کی گئی ہے۔ ہم نے سب کے لیے گھر منصوبہ اور کسانوں کی آمدنی دوگنی کرنے کے وعدے دیکھ لیے ہیں اور ان کا حشر بھی ہمیں معلوم ہے۔

وزیر مالیات نے یہ کہتے ہوئے اپنی حکومت کی پیٹھ تھپتھپا تو دی کہ معیشت میں تیزی سے بہتری اور ریکوری ہو رہی ہے، لیکن ایسا نظر نہیں آ رہا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’مجموعی طور پر معیشت میں تیز ریکوری ہو رہی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ملک مضبوطی کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے۔ ہندوستان کی معاشی شرح ترقی 9.2 فیصد رہنے کا اندازہ ہے جو سبھی بڑی معیشتوں میں سب سے زیادہ ہے۔‘‘


لیکن بات تو یہ ہے کہ ہندوستانی معیشت ابھی وہاں پہنچی ہے جہاں کووڈ وبا شروع ہونے سے پہلے تھی۔ 20-2019 میں ملک کی مجموعی جی ڈی پی تقریباً 145 لاکھ کروڑ ہونے کا اندازہ تھا جو کہ مالی سال ختم ہونے تک تقریباً 147 لاکھ کروڑ پہنچی تھی یعنی معیشت میں کوئی اصلاح نہیں ہوئی تھی۔ ایسے میں 9.2 فیصد کی شرح ترقی کا اندازہ سوائے ایک نمبر کے مزید کچھ نہیں۔ کیونکہ یہ ثابت ہو چکا ہے کہ وبا سے ہندوستان کی معیشت سب سے زیادہ متاثر ہوئی تھی۔

ٹی وی چینلوں کو دیکھیں تو کارپوریٹ ورلڈ کے لوگ اور پینل میں حصہ لینے والے تجزیہ کار بجٹ کی تعریف کرنے میں بغلیں جھانکتے نظر آئے کیونکہ بجٹ میں کوئی امید کی شمع ہی نہیں نظر آتی، بلکہ ملک کے سامنے ایک سنگین سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ آخر گزشتہ 8 سال میں اس حکومت نے کیا حاصل کیا ہے۔ اور مودی حکومت ملک کے سامنے کون سی معاشی وراثت چھوڑ کر روانہ ہوگی؟


منموہن سنگھ کے دور میں ملک کی معیشت میں تین گنا سے زیادہ اضافہ ہوا اور ان کی حکومت کے بیشتر سالوں میں جی ڈی پی شرح ترقی 8 فیصد سے زیادہ رہی۔ مودی حکومت کے دور میں نہ صرف شرح ترقی میں زبردست سستی دیکھی گئی بلکہ آمدنی کی نابرابری میں بھی بڑا فرق دیکھا گیا۔ اس سے ایک ایسا چکر شروع ہوا جس میں استعمال کم ہوا اور نئے پروجیکٹ میں کارپوریٹ سرمایہ کاری یعنی نجی سرمایہ کاری تقریباً بند ہی ہو گئی۔

بی جے پی نے 2014 میں اچھے دنوں کا وعدہ کیا تھا، لیکن گزشتہ آٹھ سال میں اس حکومت نے مزدور اور متوسط طبقہ کو سوائے تکلیف دینے کے مزید کچھ نہیں کیا۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان کی تاریخ میں ملک کے آٹھ سال انتہائی مایوس کن انداز میں برباد کر دیئے گئے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔