یکساں سول کوڈ فی الحال ممکن نہیں: لا کمیشن

’ملک کے 26 فیصد حصے میں پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون نافذ نہیں ہوتا، اس میں شمال مشرق، قبائلی علاقے اور جموں و کشمیر کا حصہ آتا ہے۔ اس لئے تمام مذاہب کے لئے یکساں قانون فی الحال ممکن نہیں ہے۔‘

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

یو این آئی

نئی دہلی: اپنی مدت کار کے آخری دن (31 اگست) لا کمیشن نے پرسنل لا پر ایک مشاورتی نوٹ جاری کیا، جس میں ’بلاوجہ‘ طلاق، نان و نفقہ اور شادی کے لئے اجازت کی عمر میں غیر یقینی اور عدم مساوات جیسی نئی جہتوں پر بحث کی گئی ہے۔ مشاورتی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں یکساں سول کوڈ کی فی الحال ضرورت نہیں ہے۔

جسٹس (ریٹائرڈ) بی ایس چوہان کی صدارت والے لا کمیشن نے یکساں سول کوڈ پر مکمل رپورٹ دینے کے بجائے مشاوتی نوٹ دینے کو ترجیح دی ہے کیوں کہ جامع رپورٹ پیش کرنے کے لحاظ سے اس کے پاس وقت کی کمی تھی۔

مشاورتی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ یکساں سول کوڈ کا معاملہ کافی وسیع ہے اور اس کے ممکنہ مضمرات کا ابھی ہندوستان میں تجربہ نہیں کیا گیا ہے۔ اس لئے گذشتہ دو سال کے دوران کی گئی تفصیلی تحقیق اور تمام بحث و مباحثہ کے بعد کمیشن نے ہندوستان میں عائلی قوانین میں اصلاحات کے سلسلے میں یہ مشاورتی نوٹ پیش کیا ہے۔

کمیشن نے تفصیلی بحث و مباحثہ کے بعد جاری مشاورتی نوٹ میں مختلف مذاہب، نظریات اور عقائد کے ماننے والوں کے پرسنل لا کو ضابطہ بند کرنے اوران پر عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ اس میں ہندو، مسلم، سکھ، عیسائی اورپارسی سمیت کئی مذاہب کے مطابق تسلیم شدہ پرسنل لا یا مذہبی قوانین کے مطابق شادی، اولاد، گود لینے،فسخ نکاح، وراثت اور جائیداد کی تقسیم کے قوانین جیسے امور پر اپنی رائے دی ہے۔

کمیشن نے کہا کہ اس مرحلے میں یکساں سول کوڈ کی نہ تو ضرورت ہے اور نہ ہی مطلوب ہے۔ اس کے علاوہ کمیشن نے یہ بھی کہا ہے کہ موجودہ پرسنل لا میں سدھار کی ضرورت ہے اور مذہبی رسوم و رواج اور بنیادی حقوق کے درمیان موافقت قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔

جسٹس چوہان نے پہلے کہا تھا کہ یکساں سول کوڈ کی سفارش کرنے کے بجائے کمیشن پرسنل لا میں مرحلہ وار طریقے سے تبدیلی کی سفارش کرسکتا ہے۔ اب یہ بائیسویں لا کمیشن پر منحصر کرے گا کہ وہ اس متنازعہ معاملے پر حتمی رپورٹ پیش کرے گا۔

حالیہ دنوں میں یکساں سول کوڈ کے معاملے پر کافی بحث و مباحثہ ہوا ہے۔ وزارت قانون نے 2016 میں کمیشن سے کہا تھا کہ وہ یکساں سول کوڈ کے معاملے کو دیکھے۔

کمیشن کا ماننا ہے کہ یکساں سول کوڈ ایک تفصیلی موضوع ہے اور اسے پورا کرنے میں وقت لگے گا۔ کوڈ پر غور و خوض جاری ہے۔ اس سلسلے میں جسٹس چوہان کا کہنا ہے کہ ملک کے 26 فیصد حصے میں پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون نافذ نہیں ہوتا ہے اس میں شمال مشرق، قبائلی علاقے اور جموں و کشمیر کا حصہ آتا ہے۔ اس لئے تمام مذاہب کے لئے یکساں قانون فی الحال ممکن نہیں ہے۔ کمیشن نے مشاورتی نوٹ میں تین طلاق، نکاح حلالہ اور کثرت ازدواج کے معاملے پر کوئی بات نہیں کہی ہے کیوں کہ یہ معاملات فی الحال سپریم کورٹ میں زیر التوا ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 01 Sep 2018, 8:47 AM