روزگار سے متعلق مودی حکومت کا دعویٰ ایک بار پھر جھوٹا ثابت

اسٹیٹ آف ورکنگ انڈیا 2018 کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ہندوستان میں انڈر ایمپلائمنٹ اور کم مزدوری کا بھی مسئلہ ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نوجوانوں میں بے روزگاری 16 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

عظیم پریم جی یونیورسٹی کے ایمپلائمنٹ سنٹر کی ایک تازہ رپورٹ میں بے روزگاری شرح گزشتہ 20 سالوں میں سب سے زیادہ ہونے کی بات کہی گئی ہے۔ رپورٹ تیار کرنے والوں نے ہندوستان میں بے روزگاری شرح کے بڑھنے کی وجہ ملازمتوں کے پیدا ہونے کی رفتار دھیمی ہونا، ورک فورس بڑھنے کی جگہ کم ہونا اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کے تیزی سے بے روزگاروں میں شامل ہونے کو بتایا ہے۔

عظیم پریم جی یونیورسٹی کے اسکول آف لبرل اسٹڈیز، معاشیات کے اسسٹنٹ پروفیسر اور ملک میں بڑھتی بے روزگاری پر سے پردہ اٹھانے والی اسٹیٹ آف ورکنگ انڈیا، 2018 رپورٹ کے اہم رائٹر امت بسولے نے بتایا کہ ’’یہ اعداد و شمار محنت بیورو کے 5ویں سالانہ روزگاری-بے روزگاری سروے (16-2015) پر مبنی ہے۔‘‘

وزارت محنت کی رپورٹ کے مطابق کئی سالوں تک بے روزگاری شرح دو سے تین فیصد کے آس پاس رہنے کے بعد سال 2015 میں پانچ فیصد پر پہنچ گئی۔ اس کے ساتھ ہی نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 16 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ امت بسولے کا کہنا ہے کہ ’’ملک میں بڑھتی بے روزگاری کے پیچھے دو اسباب ہیں، پہلا 2013 سے 2015 کے درمیان ملازمتوں کے پیدا ہونے کی سست رفتار ہونا، ورک فورس بڑھنے کی جگہ کم ہونا کیونکہ کل ورک فورس (ملازمتوں میں لگے لوگوں کی تعداد) بڑھنے کی جگہ گھٹ گئی ہے۔ دوسرا سبب یہ ہے کہ لیبر فورس میں داخل ہونے والے زیادہ تعلیم یافتہ نوجوان، جو کہ کسی بھی کام کو کرنے کی جگہ مناسب ملازمت کا انتظار کرنا پسند کرتے ہیں۔‘‘

اسٹیٹ آف ورکنگ انڈیا، 2018 رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2015 میں بے روزگاری شرح 5 فیصد تھی جو گزشتہ 20 سالوں میں سب سے زیادہ دیکھی گئی ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جی ڈی پی میں اضافہ کے نتیجہ میں روزگار میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔ تحقیق کے مطابق جی ڈی پی میں 10 فیصد کے اضافہ کی وجہ سے روزگار میں ایک فیصد سے بھی کم کا اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ میں بڑھتی بے روزگاری کو ہندوستان کے لیے ایک نیا مسئلہ بتایا گیا ہے۔

ان حالات سے نمٹنے کے لیے کیا حکومت نے مناسب قدم اٹھائے ہیں، اس پر معاشیات کے اسسٹنٹ پروفیسر امت بسولے نے بتایا کہ ’’ان حالات پر حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لینا تھوڑا مشکل ہے۔ خاص طور سے 2015 کے بعد کیونکہ اس کے بعد سے حکومت نے مجموعی روزگار کے حالات پر کوئی ڈاٹا جاری نہیں کیا ہے۔ سنٹر فار مانیٹرنگ دی انڈین اکونومی (سی ایم آئی ای) جیسے پرائیویٹ ذرائع کے دستیاب ڈاٹا سے پتہ چلتا ہے کہ ملازمتیں کم ہی پیدا ہوں گی۔ سی ایم آئی ای ڈیٹا یہ بھی بتاتا ہے کہ نوٹ بندی کی وجہ سے ملازمتوں میں کمی آئی ہے اور حکومت نے اس پر بھی کوئی ڈاٹا جاری نہیں کیا ہے۔‘‘

اسٹیٹ آف ورکنگ انڈیا 2018 کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان میں انڈر ایمپلائمنٹ اور کم مزدوری کا بھی مسئلہ ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور نوجوانوں میں بے روزگاری شرح 16 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔ بے روزگاری پورے ملک میں ہے لیکن اس سے سب سے زیاد متاثر ملک کی شمالی ریاستیں ہیں۔

امت بسولے نے یہ بھی کہا کہ ہندوستان کی ملازمت بازار کا نقشہ بدل گیا ہے کیونکہ بازار میں اب زیادہ تعلیم یافتہ لوگ آ چکے ہیں۔ یہ لوگ دستیاب کسی بھی کام کو کرنے کی جگہ مناسب ملازمت کا انتظار کرنا پسند کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’گزشتہ دہائی میں لیبر مارکیٹ بدل گیا ہے، مختلف ڈگریوں کے مطابق روزگار پیدا نہیں ہوئے ہیں۔‘‘

حالات کو معمول کے مطابق بنانے کے لیے کس طرح کے اقدام کیے جانے چاہئیں، اس سوال پر رپورٹ کے اہم رائٹر نے بتایا کہ ’’یہ حالات کو معمول کے مطابق بنانے کا سوال نہیں ہے۔ اس کی جگہ ہمیں ایک مناسب قومی روزگار پالیسی تیار کرنے کی ضرورت ہے جو مرکز کے ذریعہ اقتصادی پالیسی بنانے میں ملازمتیں پیدا کرے گی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔