بے قابو تعمیرات سے پہاڑوں کو شدید خطرہ لاحق، دھرالی و ہرسل جیسی تباہیوں کے بڑھنے کا اندیشہ

ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بے قابو تعمیرات، جنگلات کی کٹائی اور موسمیاتی تبدیلی ہمالیائی خطے میں بادل پھٹنے اور مٹی کے تودے گرنے کے واقعات بڑھا رہی ہیں، فوری اقدامات ضروری ہیں

<div class="paragraphs"><p>تصویر آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

اتراکھنڈ کے دھرالی اور ہرسل میں حالیہ آفات کی ہولناکی اب بھی لوگوں کو خوفزدہ کر رہی ہے۔ چھٹے روز بھی راحت اور بچاؤ کا کام جاری رہا۔ اتوار کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے مزید 185 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا، یوں اب تک کل 1311 افراد کو نکالا جا چکا ہے۔ اس سانحے کے بعد ماہرین نے ایک بار پھر متنبہ کیا ہے کہ حساس پہاڑی علاقوں میں بے قابو اور غیر منصوبہ بند تعمیرات، فطرت کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہیں۔

یہ پہاڑی خطے اپنی قدرتی خوبصورتی اور حیاتیاتی تنوع کے لیے پہچانے جاتے ہیں، مگر تیزی سے ہو رہا سڑکوں اور عمارتوں کا پھیلاؤ ماحول کے توازن کو بگاڑ رہا ہے۔ نینی تال میں واقع ایریز کے سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ ایسی سرگرمیاں نہ صرف مقامی ماحولیاتی نظام کو کمزور کر رہی ہیں بلکہ بادل پھٹنے جیسے خطرناک واقعات کو بھی بڑھا رہی ہیں۔

ماہرین کے مطابق پہاڑوں کی مٹی قدرتی طور پر کمزور اور کٹاؤ کا شکار ہوتی ہے۔ بڑے پیمانے پر پہاڑ کاٹ کر کی جانے والی تعمیرات مٹی کی پانی جذب کرنے کی صلاحیت کو کم کر رہی ہیں، جس سے مقامی موسمی نظام بگڑ رہا ہے۔ نتیجتاً، حالیہ برسوں میں پہاڑوں میں ’مقامی بادل بننے‘ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ بادل نسبتاً کم بلندی پر بنتے ہیں اور اچانک کسی ایک جگہ موسلا دھار بارش برسا دیتے ہیں، جو شدید تباہی کا باعث بنتی ہے۔

موسمیات کے ماہر نریندر سنگھ کے مطابق ہر تعمیراتی سرگرمی سے حرارت اور ریڈی ایشن خارج ہوتا ہے، جو فضا میں جا کر درجہ حرارت بڑھاتا ہے۔ جہاں زیادہ تعمیرات ہوتی ہیں وہاں اوسط درجہ حرارت دیگر علاقوں سے زیادہ پایا جاتا ہے۔ یہ حرارت بادلوں کے بننے اور برسنے کے انداز کو بدل دیتی ہے۔ پہلے جہاں بادل مہینوں میں تیار ہو کر ہلکی بارش کرتے تھے، اب وہ چند گھنٹوں میں گھِر کر شدید بارش برساتے ہیں، جس کے نتیجے میں بادل پھٹنے اور مٹی کے تودے گرنے کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔


ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ، جنگلات کی کٹائی اور تیزی سے بڑھتی تعمیرات کے مشترکہ اثرات اب ہمالیائی خطے میں صاف نظر آنے لگے ہیں۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو آنے والے برسوں میں اتراکھنڈ سمیت دیگر پہاڑی ریاستوں میں قدرتی آفات کی شدت اور تعداد کئی گنا بڑھ سکتی ہے۔

مقامی ماحولیاتی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ترقی اور ماحولیات کے درمیان توازن قائم کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ ان کے مطابق پائیدار اور منصوبہ بند تعمیرات، جنگلات کا تحفظ اور پہاڑی علاقوں میں سخت تعمیراتی ضابطے ہی اس بڑھتے ہوئے خطرے سے نمٹنے کا واحد راستہ ہیں۔ بصورت دیگر، نہ صرف پہاڑوں کی دلکشی ماند پڑ جائے گی بلکہ وہاں بسنے والے لاکھوں افراد کی زندگیاں بھی مستقل خطرے کی زد میں آ جائیں گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔