’فساد کے وقت عمر خالد دہلی میں تھے ہی نہیں‘، کپل سبل نے سپریم کورٹ میں پیش کی دلیل، آئندہ سماعت 3 نومبر کو

سینئر وکیل ابھشیک منو سنگھوی نے کہا کہ گلفشاں اپریل 2020 سے 5 سال 5 ماہ جیل میں گزار چکی ہیں۔ فرد جرم 2020 میں داخل کیا گیا تھا اور اب ہر سال ایک ضمنی فرد جرم داخل کیا جا رہا ہے۔

<div class="paragraphs"><p>عمر خالد / آئی اے این ایس</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

دہلی میں 2020 میں ہوئے فسادات معاملہ میں ملزم شرجیل امام، عمر خالد، میران حیدر سمیت کئی لوگ جیل میں بند ہیں۔ ان کی ضمانت عرضی پر آج سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی۔ گلفشاں فاطمہ کی طرف سے ابھشیک منو سنگھوی نے بات رکھی۔ انھوں نے کہا کہ انھیں جیل میں بند ہوئے 5 سال 5 ماہ ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی ضمنی فرد جرم بھی داخل ہو چکے ہیں۔ جسٹس اروند کمار اور جسٹس این وی انجیریا کی بنچ نے اس معاملے کی سماعت کی۔ عدالت نے دلیلیں سننے کے بعد ضمانت عرضی پر سماعت 3 نومبر تک کے لیے ملتوی کر دی ہے۔

گلفشاں فاطمہ کی طرف سے پیش سینئر وکیل ابھشیک منو سنگھوی نے کہا کہ گلفشاں اپریل 2020 سے 5 سال 5 ماہ جیل میں گزار چکی ہیں۔ فرد جرم 16 ستمبر 2020 کو داخل کیا گیا، اب وہ ہر سال ایک ضمنی فرد جرم داخل کرنے کے لیے ایک سالانہ عمل انجام دیتے ہیں۔ عدالت میں سماعت کے دوران کپل سبل نے تو عمر خالد سے متعلق یہ دعویٰ کیا کہ فسادات کے وقت وہ دہلی میں موجود ہی نہیں تھے۔ انھوں نے مزید کہا کہ یہ بعد میں طے کیا جانا ہے کہ کیا اس طرح کے ضمنی فرد جرم کے ذریعہ جانچ جاری رکھی جا سکتی ہے۔


ابھشیک منو سنگھوی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا کہنا ہے گلفشاں مساوات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ضمانت کی حقدار ہیں۔ سنگھوی نے کہا کہ اس معاملے پر غور کرنے میں بھی بہت تاخیر ہو چکی ہے۔ یہ بھی نظر میں رکھی جانی چاہیے کہ وہ ایک خاتون ہیں۔ سنگھوی نے کہا کہ الزامات پر بحث جاری ہے اور الزامات طے نہیں ہوئے ہیں۔ اس پر سپریم کورٹ نے سوال کیا کہ یہ کب شروع ہوا؟ سنگھوی نے کہا کہ اکتوبر 2024 تک 939 گواہ پیش کیے گئے۔ یہاں خوبی یا خامی معنی نہیں رکھتی ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ دہلی فسادات کے الزام میں جیل میں بند ملزمین کی ضمانت کے خلاف دہلی پولیس کی طرف سے حلف نامہ داخل کیا گیا ہے۔ اس میں پولیس کی طرف سے کہا گیا ہے کہ 2020 کے دہلی فسادات کوئی اچانک بھڑکا تشدد نہیں تھا، بلکہ مرکز میں اقتدار کی تبدیلی سے متعلق سازش کے تحت کیے گئے تھے۔ اس کا مقصد ملک کو کمزور کرنا تھا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس سازش کے تحت ملک بھر میں تشدد پھیلانے کی کوشش ہوئی۔


ہائی کورٹ کی طرف سے دہلی فسادات کے سبھی ملزمین کی پہلے ہی ضمانت عرضی خارج کر دی گئی تھی۔ عدالت نے کہا تھا کہ شہریوں کے ذریعہ مظاہرہ یا احتجاجی مظاہرہ کی آڑ میں سازشی تشدد کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے۔ شرجیل امام کی طرف سے سینئر وکیل سدھارتھ دَوے نے کہا کہ فریق استغاثہ کو جانچ پوری کرنے میں 3 سال لگ گئے۔ 3 سال تک مقدمہ آگے نہیں بڑھ سکا، کیونکہ انھوں نے کہا کہ جانچ جاری ہے۔ اس لیے 5 میں سے 3 سال نکل گئے۔ عمر خالد کی طرف سے پیش سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ اس معاملے میں 751 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ دہلی فساد کے وقت عمر خالد دہلی میں موجود ہی نہیں تھے۔ انھوں نے کہا کہ اگر میں وہاں نہیں ہوں، تو فسادات کو اس سے کس طرح جوڑا جا سکتا ہے؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔