عمر خالد اور شرجیل امام کو سپریم کورٹ سے نہیں ملی فوری راحت، ضمانت عرضی پر سماعت 19 ستمبر تک ملتوی
جسٹس اروند کمار اور جسٹس این وی انجاریا کی بنچ نے کہا کہ انھیں ضمانت عرضی سے متعلق فائلیں بہت تاخیر سے ملیں۔

عدالت عظمیٰ نے جمعہ کے روز دہلی فسادات کے ملزمین عمر خالد اور شرجیل امام سمیت کچھ دیگر کی ضمانت عرضیوں پر سماعت 19 ستمبر تک کے لیے ملتوی کر دی ہے۔ یعنی ان ملزمین کو فوری راحت نہیں مل سکی ہے۔ عمر خالد، شرجیل امام، گلفشاں فاطمہ اور میران حیدر نے قومی راجدھانی دہلی میں فروری 2020 میں ہوئے فسادات کی مبینہ سازش سے منسلک یو اے پی اے معاملے میں ضمانت عرضی داخل کی تھی۔ آج اس عرضی پر سماعت مقرر تھی، لیکن جسٹس اروند کمار اور جسٹس این وی انجاریا کی بنچ نے کہا کہ انھیں فائلیں بہت تاخیر سے ملیں۔
ملزمین نے 2 ستمبر کے دہلی ہائی کورٹ کے اس حکم کو چیلنج پیش کیا ہے، جس میں عمر خالد اور شرجیل امام سمیت 9 لوگوں کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ شہریوں کی طرف سے مظاہروں یا احتجاجی مظاہروں کے پس پردہ سازش پر مبنی تشدد کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جن لوگوں کی ضمانت عرضی خارج کی گئی ان میں عمر خالد، شرجیل امام، گلفشاں فاطمہ، محمد سلیم خان، شفا الرحمن، اطہر خان، میران حیدر، عبدالخالد سیفی اور شاداب احمد شامل ہیں۔ ایک دیگر ملزم تسلیم احمد کی ضمانت عرضی 2 ستمبر کو ہائی کورٹ کی ایک دیگر بنچ نے خارج کر دی تھی۔
ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ آئین شہریوں کو احتجاجی مظاہرہ یا تحریک چلانے کا حق دیتا ہے، بشرطیکہ وہ منظم، پرامن اور بغیر اسلحوں کے ہوں اور ایسی کارروائی قانون کے دائرے میں ہونی چاہیے۔ حالانکہ ہائی کورٹ نے کہا کہ پرامن احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینے اور عوامی اجلاس میں تقریر کرنے کا حق آرٹیکل 19(1)(اے) کے تحت مھفوظ ہے۔ اسے واضح طور سے محدود نہیں کیا جا سکتا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ یہ حق مکمل طور پر نہیں ہے، بلکہ مناسب پابندیوں کے ماتحت ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔