’یوکرین پوری طاقت کے ساتھ جنگ جاری رکھ سکتا ہے‘، امریکی امن منصوبے کے درمیان ٹرمپ کا حیران کن بیان

یورپی ممالک نے اس بات کا اعادہ کیا کہ کسی بھی ملک کی سرحدیں زبردستی تبدیل نہیں کی جانی چاہئیں اور اگر یوکرین اپنی موجودہ پوزیشن کو ترک کرتا ہے تووہ مستقبل کے لئے غیرمحفوظ ہوجائے گا۔

<div class="paragraphs"><p>ویڈیو گریب</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

ایسے وقت میں جب امریکی صدر سمیت دنیا کی بڑی طاقتیں عالمی امن کی باتیں کر رہی ہیں، ڈونالڈ ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے صاف کہا کہ امریکہ کی جانب سے کیف کو بھیجی گئی امن تجویز حتمی پیشکش نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر یوکرین چاہے تو پوری طاقت کے ساتھ لڑائی جاری رکھ سکتا ہے۔ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ امریکہ ہر حال میں اس تنازع کو ختم کر وائے گا اور توقع ہے کہ یوکرین 27 نومبر تک جواب دے گا۔ اسی بات چیت میں ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ اگر وہ 2022 میں صدر ہوتے تو روس یوکرین جنگ کبھی شروع ہی نہیں ہوتی۔

اس سلسلے میں امریکی سیاست میں اس وقت بڑی ہلچل ہوئی جب ریپبلکن سینیٹر مائیک راؤنڈز نے بتایا کہ وزیر خارجہ مارکو روبیو نے سینیٹرز کو آگاہ کیا کہ امریکہ کی طرف سے تیار کردہ 28 نکاتی امن منصوبہ درحقیقت روس سے موصول ہونے والے مواد پر مبنی ہے۔ حالانکہ امریکی محکمہ خارجہ نے اس دعوے پر عوامی سطح پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ دریں اثنا امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی اور یوکرین کے نمائندے جنیوا میں اس مسودے پر نظرثانی اوربات چیت کرنے والے ہیں۔


ادھر یوکرین کے صدر ولادیمیرزیلنسکی نے امریکی تجویز پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کییف اس وقت اپنی تاریخ کے مشکل ترین دور سے گزر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کی جانب سے آنے والا مسودہ روس کے مفادات کے قریب نظر آتا ہے اور یوکرین پر اسے قبول کرنے کے لیے دباؤبڑھتا جا رہا ہے۔ زیلنسکی نے کہا کہ ملک کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ملک اپنے وقار کو بچائے یا ایک بڑے اتحادی کو کھونے کا خطرہ مول لے۔ انہوں نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا اور بات چیت کی مکمل ذمہ داری اپنے چیف آف سٹاف اینڈری یرماک کو سونپی ہے۔

جی 20 میں شامل یورپی ممالک نے امریکی منصوبے پر اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ مسودہ باہمی بات چیت کی بنیاد کے طور پر کام کر سکتا ہے، لیکن کئی اہم نکات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ یورپی ممالک نے اس بات کا اعادہ کیا کہ کسی بھی ملک کی سرحدیں زبردستی تبدیل نہیں کی جانی چاہئیں اور اگر یوکرین اپنی موجودہ پوزیشن کو ترک کرتا ہے تووہ مستقبل کے لئے غیرمحفوظ ہوجائے گا۔


افشا ہونے والے امریکی مسودے میں مبینہ طور پر مشرقی ڈونیٹسک کے کچھ حصوں سے یوکرین کا انخلا، روس کے زیر کنٹرول علاقوں کو تسلیم کرنے اور کھیرسان اور زپوری زہیا میں جنگی خطوط کو مستحکم کرنے جیسی تجاویز شامل ہیں۔ اس کے ساتھ یوکرین کی فوج کے حجم کو محدود کرنے اور پڑوسی ملک پولینڈ میں یورپی لڑاکا طیاروں کی تعیناتی کی تجاویز سامنے آئی ہیں۔ مزید برآں مسودے میں روس پر اقتصادی پابندیوں کو بتدریج کم کرنے اور مستقبل میں جی7 میں اس کی واپسی کا راستہ کھولنے کی تجویز بھی شامل ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔