کیسے جلایا ٹوئٹر نے کاس گنج!

بے حد پیشہ ورانہ طریقے سے کیے گئے ٹوئٹس میں اشتعال انگیز زبان کا استعمال کیا گیا تھا اور الفاظ کو دیکھ کر احساس ہو رہا تھا جیسے یہ پہلے سے تیار کیے گئے ہوں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آس محمد کیف

کاس گنج/مظفر نگر: مظفر نگر فساد میں دو نوجوانوں کے قتل کا ایک ویڈیو وائرل ہوا جسے سردھنا کے ممبر اسمبلی سنگیت سوم کے فیس بک اکاؤنٹ سے شیئر کیا گیا تھا۔ جب تک یہ پتہ چلتا کہ یہ ویڈیو پاکستان کے شہر سیالکوٹ کا ہے اس وقت تک مظفر نگر میں آگ لگ چکی تھی۔ بعد میں سنگیت سوم کے خلاف اس شرمناک حرکت کے لیے مقدمہ بھی درج ہوا اور وہ راسوکا میں جیل بھی گئے۔ مظفر نگر میں غلط فہمی اس بات پر بھی پھیلائی گئی تھی کہ دونوں قتل چھیڑ چھاڑ کی مخالفت میں ہوئےتھے جو کہ پوری طرح جھوٹے ثابت ہوئے۔ یہ سب پروپیگنڈا سوشل میڈیا سے تیار کیا گیا تھا۔ چار سال بعد پھر کاس گنج میں آگ لگانے میں بھی سوشل میڈیا نے اہم کردار نبھایا ہے۔ بس فرق صرف اتنا رہا کہ اس مرتبہ فیس بک سے زیادہ سرگرمی ٹوئٹر پر دکھائی دی۔

یومِ جمہوریہ کے موقع پر #kasganj ٹوئٹر پر ٹرینڈنگ میں اول مقام پر تھا اور تقریباً 40 ہزار ٹوئٹ ایک گھنٹے میں کیے گئے تھے۔ بے حد پیشہ ورانہ طریقے سے کیے جا رہے ان ٹوئٹس میں اشتعال انگیز زبان کا استعمال کیا گیا تھا اور الفاظ منصوبہ بند طریقے سے تیار کیے گئے معلوم ہو رہے تھے۔ اس دن ٹوئٹر پر سیلاب آ گیا تھا اور پوری دنیا یہ جان گئی کہ ہندوستان میں قومی پرچم کی یاترا نکالنے کی مسلمانوں نے مخالفت کی جس میں ایک نوجوان کی موت ہو گئی۔ اگلے دن جب تک حقیقت سب کے سامنے آتی اس وقت تک ایک طبقہ کی حب الوطنی پر سوالیہ نشان لگ چکا تھا اور اس کے اگلے دن کاس گنج جلنے لگا۔ مسلمان خود ترنگا لہرا رہے تھے اس کا پتہ تو دوسرے دن لگا ۔ آئی ٹی کی ایکسپرٹ ٹیم اس وقت تک اپنا کام کر چکی تھی۔ بالکل اسی طرح جس طرح مظفر نگر میں ہوا تھا۔ یہ بھی غور کرنے والی بات ہے کہ آخر کس طرح کے ٹوئٹ تھے جس نے ماحول کو خراب کر دیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ راجپوت اکثریت والے اس علاقے میں لگاتار ’پدماوت‘ اور ’کاس گنج‘ کا موازنہ کیا جانے لگا۔ بڑی تعداد میں ٹوئٹر ہینڈل پر یہ لکھا جا رہا تھا کہ اب بتاؤ راجپوت دہشت گرد ہیں یا مسلمان۔ یہ لوگ للکار رہے تھے کہ اب ٹی وی چینل راجپوتوں کی طرح مسلمانوں کو فساد برپا کرنے والا کہہ کر دکھائیں۔ ہزاروں کی تعداد میں کیے گئے ٹوئٹس سے کاس گنج کے واقعہ کو دنیا بھر میں غلط طریقے سے پیش کیا گیا۔

یہ سب ایک دن میں نہیں ہوا۔ کاس گنج کے پاس کے قصبے نگلوئی میں رہنے والے سماجی کارکن امن پٹھان ’قومی آواز‘ کو بتاتے ہیں کہ ٹوئٹر کا تو ایک دن کا پروپیگنڈا تھا اور اس کا اثر پوری دنیا میں ہوا، لیکن یہاں کے نوجوانوں کے دلوں میں نفرت وہاٹس ایپ کے ذریعہ بھری جا رہی تھی۔ وہ کہتے ہیں ’’ہر محلے میں ایک نوجوان ہے جس نے آس پاس کے سبھی نوجوانوں کو وہاٹس ایپ سے جوڑ رکھا ہے اور اس گروپ میں 256 لوگ ایک ساتھ شامل ہو سکتے ہیں۔ وہ خیال رکھتے ہیں کہ کوئی مسلم کسی بھی طرح گروپ میں نہ ہو۔ اس گروپ کا ایڈمن ضلع کے گروپ میں ممبر ہے اور ضلع کا ایڈمن اسٹیٹ کے گروپ میں ممبر ہے۔ صرف کچھ سیکنڈ میں ایک میسج کو لاکھوں لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے اور یہ پیغام مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے کے لیے ہوتا ہے۔ امن پٹھان بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے کئی دوستوں کے موبائل میں ایسے گروپ دیکھے ہیں۔

مظفر نگر کے محمد وسیم کا اس سلسلے میں کہنا ہے کہ ’’یہاں بھی اسی طرح کے وہاٹس ایپ گروپ بنائے گئے تھے اور مہینوں پہلے نوجوانوں کا برین واش کیا گیا تھا۔ اب ان میں بہت کمی آ گئی ہے اور یہ زیادہ سرگرم نہیں ہیں۔‘‘ ایڈوکیٹ منوج سودائی کا کہنا ہے کہ ’’چونکہ نوجوان نفرت پھیلانے والے ان میسجز کو کسی دوسری جگہ بھی بھیجنے لگے تو ان پر سماجوادی پارٹی کی حکومت میں مقدمہ ہونے لگے اس لیے یہ لڑکے گروپ چھوڑنے لگے۔‘‘

ہندو یوا واہنی سے منسلک ایک کارکن ہمیں بتاتے ہیں کہ ان پیغامات میں اسلام اور عیسائیت کی سخت مخالفت ہوتی ہے اور زبان بہت گندی ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک مخصوص جگہ سے میسج آنے کے بعد اسے سبھی جگہ بھیجنے کی ہدایت ملتی ہے اور اس کے لیے ایڈمن کی باقاعدہ ٹریننگ ہوتی ہے۔ ٹوئٹر پر کام کرنے کا طریقہ الگ ہے۔ یہاں لوگ ایک دوسرے کو نہیں جانتے مگر ہیش ٹیگ کوڈ سے ہدایت ملتی ہے۔ آئی ٹی سے جڑے قاسم کے مطابق آپ دیکھیے گا کہ ہندو، ہندوستانی، راشٹروادی جیسے نام ان کے پروفائل سے جڑے ہوتے ہیں اور یہ سیوڈو، سیکولر، نمازوادی جیسے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ قاسم کی بات میں اس لیے بھی دَم نظر آتا ہے کیونکہ مظفر نگر میں بھی اسی طرح کی فیس بک پوسٹ سے فساد پھوٹ پڑے تھےاور اب کاس گنج میں اسی طرح کے ٹوئٹ نے ہنگامہ برپا کیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ ان پر لگام کس طرح لگائی جا سکتی ہے۔ اتر پردیش سائبر سیل کے پولس سپرنٹنڈنٹ تروینی سنگھ آئی ٹی سیل کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’فیس بک اب مانیٹر ہونے لگا ہے، وہاٹس ایپ کو مانیٹر کرنا تھوڑا مشکل ہے اور ٹوئٹر پر ایسے لوگ صحیح پہچان کے ساتھ سامنے نہیں آتے۔ اگرکوئی پکڑ میں آتا ہے تو پرانا اکاؤنٹ ڈیلیٹ کر کے اپنا نیا اکاؤنٹ بنا لیتا ہے۔‘‘بہر حال، کاس گنج میں تشدد فی الحال قابو میں ہے لیکن سوشل میڈیا نے دلوں میں جو زہر بھر دیا ہے اس کا اثر اتنی جلد زائل نہیں ہونے والا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 30 Jan 2018, 5:58 PM