بی جے پی حامی ٹویٹر ہینڈل کے ’پول‘مودی پر ہی پڑ گئے بھاری

ہندوستانی سیاست کے بدلتے ماحول کو ظاہر کرنے کے لیے یہ اشارہ بہت ہے کہ ’ٹائمز ناو‘ اور ’ریپبلک‘ جیسے اینٹی کانگریس میڈیا چینل کے پولنگ ریزلٹ میں راہل اور پرینکا کو سرخروئی حاصل ہو رہی ہے۔

سوشل میڈیا 
سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

کچھ دنوں پہلے تک پی ایم مودی کو سوشل میڈیا کا ’بے تاج بادشاہ‘ تصور کیا جاتا تھا اور اپوزیشن لیڈروں کو اکثر ’ٹرولنگ‘ کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لیکن اب ماحول کافی بدلا بدلا ہوا نظر آ رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر زبردست گرفت رکھنے والی بی جے پی اور آر ایس ایس کی گرفت کمزور پڑتی جا رہی ہے، یا پھر یوں کہیں کہ ان کے فالوورس کا ان سے ’موہ بھنگ‘ ہو گیا ہے۔ ایسا اس لیے کہا جا سکتا ہے کیونکہ گزشتہ کچھ دنوں میں ٹوئٹر پر بی جے پی و آر ایس ایس حامیوں کے کئی پول ان کے ہی خلاف چلے گئے ہیں۔ جیسے جیسے لوک سبھا انتخابات قریب آ رہے ہیں، بی جے پی کی حالت سوشل میڈیا پر خراب ہی ہوتی جا رہی ہے۔

دراصل ٹوئٹر پر جو بھی پول کیے جاتے ہیں اس کا ریزلٹ کافی حد تک پول کو پوسٹ کرنے والے ہینڈل کے فالوور کے نظریات پر ہی منحصر کرتا ہے۔ اس لیے بی جے پی و آر ایس ایس کے لیے یہ کسی بری خبر سے کم نہیں کہ کئی رائٹ وِنگ نظریہ کے حامل ٹوئٹر ہینڈل پر جاری پول نے کانگریس، راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کے حق میں ریزلٹ پیش کر دیا ہے۔ مثلاً فلم ڈائریکٹر وویک اگنی ہوتری بی جے پی حامی تصور کیے جاتے ہیں اور گزشتہ دنوں انھوں نے ٹوئٹر پر پول کرتے ہوئے لوگوں سے سوال کیا کہ ’’اگر نریندر مودی اور راہل گاندھی کے درمیان مذاکرہ ہوتا ہے تو راہل کو کتنے نمبر ملیں گے؟‘‘ اس سوال کے ساتھ انھوں نے چار متبادل پیش کیے جو اس طرح تھے... 100 نمبر، 70 نمبر، 33 نمبر یا 0 نمبر۔ اس پول کے نتیجے نے وویک اگنی ہوتری کے ہوش اڑا دیے ہوں گے جب انھوں نے دیکھا ہوگا کہ 56 فیصد لوگوں نے راہل گاندھی کو 100 نمبر دیے۔ 0 نمبر دینے والے لوگوں کی تعداد محض 38 فیصد رہی۔ 70 اور 33 نمبر دینے والوں کی تعداد 3-3 فیصد رہی۔

کچھ اسی طرح کے حالات ’ٹائمز ناؤ‘ کے ذریعہ گزشتہ دنوں چلائے گئے کچھ پول کی رہی جو کہ بی جے پی حامی میڈیا ہاؤس کی شکل میں مشہور ہے۔ اس کی جانب سے ایک پول تو گزشتہ جنوری میں چلایا گیا تھا جس میں سوال پوچھا گیا تھا کہ ’’عام انتخابات میں اب 90 دن باقی رہ گئے ہیں۔ آپ ’مودی کے پانچ سالہ چیلنج‘ کے بارے میں کیا سوچتے ہیں؟‘‘ اس کا ریزلٹ بھی مودی مخالف ہی سامنے آیا۔ 85 فیصد لوگوں نے کہا کہ چیلنج میں مودی ناکام ثابت ہوئے اور 15 فیصد نے اسے کامیاب قرار دیا۔ گویا کہ مودی حکومت کی پانچ سالہ کارکردگی کو 85 فیصد لوگوں نے مسترد کر دیا۔ ’ٹائمز ناو‘ نے جنوری کے تیسرے عشرے میں بھی ایک پول جاری کیا تھا جس میں سوال تھا کہ ’’پرینکا گاندھی نے سیاست میں قدم رکھ دیا۔ کیا وہ پی ایم مودی کی مقبولیت کو کاؤنٹر کر سکیں گی؟‘‘ اس پول کے ریزلٹ میں 60 فیصد لوگوں نے پرینکا گاندھی کے حق میں فیصلہ سنایا جب کہ محض 40 فیصد لوگ پی ایم مودی کے حق میں کھڑے نظر آئے۔

’ٹائمز ناؤ‘ کے ہی ایک اور پول کی بات کرتے ہیں جس کا تعلق راہل گاندھی سے ہے۔ سوال پوچھا گیا تھا کہ ’’راہل گاندھی کے ’سب کو پیسہ پرومس‘ پر آپ کا نظریہ کیا ہے۔‘‘ اس کے لیے دو آپشن دیے گئے تھے۔ پہلا آپشن تھا ’انتخابی جملہ‘ اور دوسرا آپشن تھا ’گیم چینجر‘۔ آپ کو جان کر حیرانی ہوگی کہ اینٹی کانگریس میڈیا چینل کے ذریعہ چلائے گئے اس پول کا ریزلٹ 64-36 سے راہل گاندھی کے حق میں آیا۔ یعنی 64 فیصد لوگوں نے راہل گاندھی کے وعدہ کو ’گیم چینجر قرار دیا‘۔ ’انتخابی جملہ‘ قرار دینے والے لوگوں کی تعداد محض 36 فیصد رہی۔

ایک دیگر اینٹی کانگریس میڈیا چینل ’ریپبلک‘ کی حالت بھی ایک پول نے کچھ ایسی ہی بنا دی۔ اس میڈیا چینل نے رواں مہینے ’55 سال بمقابلہ 55 مہینہ‘ ہیش ٹیگ سے ایک پول جاری کیا تھا۔ سوال تھا ’’کیا مودی حکومت نے 55 مہینے میں اتنا کام کر دیا جتنا کانگریس حکومت نے 55 سال میں نہیں کیا؟‘‘ متبادل میں ’ہاں‘ اور ’نہیں‘ تھا۔ یہاں ریزلٹ کچھ ایسا تھا کہ 56 فیصد لوگوں نے مودی حکومت کے کام کو مسترد کر دیا۔ یعنی محض 46 فیصد لوگوں نے 55 سال پر 55 مہینے کے کام کو بھاری قرار دیا۔ یقیناً یہ نتیجہ حیران کرنے والا تھا کیونکہ اس میڈیا چینل کو فالو کرنے والے لوگ یا تو ہندوتوا ذہنیت کے ہیں یا پھر بی جے پی و آر ایس ایس حمایتی۔

یہ تو چند مثالیں ہیں، ایسے مزید پول بھی ہیں جو مختلف اینٹی کانگریس اور بی جے پی حامی ٹوئٹر ہینڈل سے جاری کیے گئے اور انھیں منھ کی کھانی پڑی۔ حالانکہ پول کے ان ریزلٹس کو پوری طرح صحیح قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن شہرت یافتہ سروے ایجنسی ’سی-ووٹر‘ کے بانی یشونت دیشمکھ نے ایک میڈیا چینل سے بات کرتے ہوئے بہت مناسب بات کہی ہے کہ ’’سوشل میڈیا کی دنیا میں بی جے پی کے حامی بھرے ہوئے ہیں اور آف لائن کی حقیقت اس سے بہت الگ ہے۔ لیکن جس طرح سے سوشل میڈیا پر ہی بی جے پی کے خلاف ماحول بن گیا ہے اس سے سمجھنا چاہیے کہ بی جے پی کی زمینی حالت مزید بدتر ہو سکتی ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 13 Feb 2019, 9:10 PM
/* */