ترکیہ، مراکش اور عیدالاضحیٰ: ہندوستانی میڈیا کا خبروں کو غلط اور جارحانہ انداز میں پیش کرنا باعث فکر

ہندی زبان کی کچھ نیوز ویب سائٹس نے ترکیہ میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر 14372 زخمی ہوئے لوگوں کی جانکاری متعصب انداز میں دی۔ اس نمبر کا استعمال فرقہ واریت اور تخریب کاری کو فروغ دینے کے لیے کیا گیا۔

علامتی تصویر
علامتی تصویر
user

قومی آواز بیورو

گزشتہ دنوں پوری دنیا میں عیدالاضحیٰ کا تہوار بڑے تزک و احتشام کے ساتھ منایا گیا۔ مراکش میں مویشیوں کی کمی اور تحفظ ماحولیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے گزشتہ کچھ سالوں کی طرح امسال بھی قربانی نہ کرنے کی گزارش حاکم کے ذریعہ کی گئی تھی، جس پر مقامی باشندوں نے عمل بھی کیا۔ بقیہ ممالک میں حسب استطاعت مسلم طبقہ نے قربانی دی اور اسلامی احکام کے عین مطابق احباب و ضرورت مندوں کے درمیان گوشت کی تقسیم بھی کی۔ لیکن ہندوستانی میڈیا، خصوصاً سماج میں ہندو-مسلم منافرت پیدا کرنے والے میڈیا اداروں نے کچھ ایسی خبریں شائع و نشر کیں، جس سے ماحول خراب ہوتا ہے۔ مراکش میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر قربانی نہ کرنے کے فیصلہ کو بھی غلط طریقے سے پیش کیا گیا اور دیگر مسلم ممالک کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش ہوئی۔ اس سلسلے میں نوجوان صحافی افروز عالم ساحل نے انگریزی نیوز پورٹل ’دی وائر‘ کے لیے ایک مضمون لکھا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح ’ترکیہ، مراکش اور عیدالاضحیٰ‘ سے متعلق خبروں کو ہندوستانی میڈیا نے توڑ مروڑ کر پیش کیا۔

افروز عالم ساحل نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ مراکش کے فیصلے کو ہندوستانی میڈیا میں غلط طریقے سے پیش کیا گیا۔ ہندوستانی میڈیا میں یہ خبر تب چلائی گئی جب ہر سال کی طرح کچھ دایاں محاذ کی تنظیمیں ہندوستان میں مویشیوں کی قربانی پر پابندی لگانے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ ان تنظیموں نے مراکش کی مثال سامنے رکھ کر بتایا کہ وہاں مویشیوں کی قربانی پر پابندی لگا دی گئی ہے، لیکن انھوں نے یہ ذکر نہیں کیا کہ عیدالاضحیٰ سے بہت پہلے فروری ماہ میں ہی مویشیوں کے ذبیحہ پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ سچ تو یہ ہے کہ اس پابندی کی وجہ ماحولیاتی ایمرجنسی تھی، کیونکہ مراکش میں 92 فیصد سے زیادہ زمین اب خشک یا نیم خشک زمرہ میں شامل ہے۔ یعنی زراعت اور ماحولیاتی بحران کو پیش نظر رکھتے ہوئے وسیع کوششوں کے نتیجے میں یہ فیصلہ لیا گیا تھا۔


’دی وائر‘ پر شائع مضمون میں بتایا گیا ہے کہ مراکش کے آفیشیل ڈاٹا سے پتہ چلتا ہے کہ رواں سال بوچڑ خانوں میں دستیاب مقامی نسل کی بھیڑ اور بکریوں کی تعداد گھٹ کر تقریباً 1.5 ملین رہ گئی ہے، جو کہ عام حالات میں 3.5 ملین ہوتی ہے۔ یعنی نصف سے بھی کم۔ مویشیوں کی یہ کم تعداد عیدالاضحیٰ کے دوران طلب کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں، کیونکہ ضرورت تو 6 ملین مویشیوں کی پڑے گی۔ ہندوستانی میڈیا نے ماحولیاتی اور معاشی وجوہات کو کنارے رکھ کر مراکش کے فیصلے کو مذہبی و سیاسی رنگ عطا کر دیا۔ کچھ نیوز ویب سائٹس پر تو یہاں تک لکھ دیا گیا کہ ’ہندوستان سمیت عالمی مسلم طبقہ کے لیے مراکش نے ایک مضبوط پیغام دیا ہے‘۔ کچھ نیوز آؤٹ لیٹس نے مراکش کو مسلم دنیا کا نمائندہ ظاہر کر دیا، اور اس بات پر بھی غور نہیں کیا کہ مراکش کی مجموعی آبادی صرف 37.7 ملین ہے، جو کہ تنہا دہلی کی آبادی کے برابر ہے۔

کچھ اسی طرح کا معاملہ ترکیہ میں عیدالاضحیٰ کے موقع پر زخمی ہوئے لوگوں کی سامنے آئی تعداد کے ساتھ بھی پیش آیا ہے۔ دراصل ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’’عیدالاضحیٰ کے لیے مویشیوں کی قربانی کے دوران ترکیہ میں مجموعی طور پر 14372 لوگ زخمی ہوئے۔ سب سے زیادہ زخمیوں کی تعداد انکارا (1049) میں درج کی گئی، اس کے بعد استنبول (753) اور کونیا (655) میں لوگ زخمی ہوئے ہیں۔‘‘ افروز عالم ساحل کا کہنا ہے کہ جب انھوں نے ترکیہ کے ایک صحافی سے عیدالاضحیٰ کے دوران زخمیوں کی بڑی تعداد کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے بتایا کہ کئی لوگوں کو لگتا ہے مویشی کی قربانی وہ خود ہی کر سکتے ہیں، جبکہ ذبیحہ کے لیے ہنر کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کئی لوگ قربانی کرتے وقت زخمی ہو جاتے ہیں۔


مضمون نگار نے مقامی لوگوں کا حوالہ دیتے ہوئے زخمی افراد سے متعلق کچھ دیگر اہم جانکاریاں بھی دی ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ترکیہ میں عیدالاضحیٰ کے دوران اسپتال میں داخل ہونے والے بیشتر لوگوں کو معمولی چوٹیں آتی ہیں۔ ہندوستان میں اس طرح کی چوٹوں کا علاج اکثر گھر پر یا مقامی فارمیسی میں ہو جاتا ہے۔ ترکیہ میں چھوٹی موٹی تکلیف کے لیے بھی لوگ اکثر اسپتال جاتے ہیں، خصوصاً جب تہواری چھٹیوں میں فیملی ڈاکٹرس موجود نہیں ہوتے ہیں تو لوگوں کو اسپتال کا ہی رخ کرنا پڑتا ہے۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ ترکیہ میں ایک منظم طبی نظام ہے، جہاں ہر شخص کو ایک خاندانی طبیب کی خدمات حاصل ہوتی ہیں۔ یہ ڈاکٹرس چھوٹے موٹے علاج اور مستقل دیکھ بھال کا ذمہ سنبھالتے ہیں۔ یہ خدمات کئی بیرون ملکی باشندوں کے لیے بھی ترکیہ میں دستیاب ہیں۔

مضمون میں بتایا گیا ہے کہ ترکیہ کے وزیر صحت نے عید قرباں کے موقع پر زخمی ہوئے لوگوں کی تعداد جاری کی، تاکہ لوگ خود سے مویشیوں کو ذبح نہ کریں۔ تعداد جاری کرنے کا اصل مقصد یہی تھا کہ حادثات اور جوکھم سے بچنے کے لیے تربیت یافتہ قصائیوں کی خدمات حاصل کریں۔ ترکیہ کی میڈیا نے اس تعلق سے رپورٹ بھی شائع کی، لیکن ہندوستانی میڈیا نے اس کو کچھ الگ ہی رنگ دے دیا۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھانے کی کوشش میں اعداد و شمار کے ساتھ ہیرا پھیری تک کی گئی۔ ہندی زبان کی کچھ ویب سائٹس نے تو زخمی لوگوں کی تعداد کو تعصب کے چشمہ سے دیکھا، اور پھر اس رپورٹ کا استعمال تخریب کاری کو فروغ دینے میں کیا۔ اس کی بہترین مثال ’زی نیوز ہندی‘ کی ایک رپورٹ کا عنوان ہے۔ ہندی عنوان کا ترجمہ ہے ’بقرعید پر جانوروں کی قربانی کی تیاری چل رہی تھی، جہاں 14 ہزار لوگ زخمی ہو گئے، اسپتالوں میں افرا تفری‘۔ اس مضمون میں گمراہ کن دعوے بھی کیے گئے۔ مثلاً ایک جگہ لکھا گیا ہے کہ ’ترکیہ، جسے پاکستان کا قریبی تصور کیا جاتا ہے، وہاں بقرعید کے دوران قربانی کے مویشیوں کو بے تحاشہ بھاگتے دیکھا گیا، اور لوگ ان کا پیچھا کر رہے تھے۔ بھگدڑ میں 14 ہزار سے زیادہ لوگ زخمی ہو گئے۔‘‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ اسی مضمون کے آخر میں ایک ڈسکلیمر لگایا ہوا تھا، جس میں لکھا گیا ہے کہ ’محبوب قارئین، یہ خبر بیداری کے لیے ہے۔ اس میں شامل ویڈیو غیر ملکی ایکس ہینڈل سے لیے گئے ہیں۔ زی نیوز ان میں کیے گئے دعووں کی تصدیق نہیں کرتا ہے۔ ہمارا مقصد کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچانا نہیں ہے‘۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔