اب کی بار، صرف تکرار...آشیش رے

ٹرمپ اگر ہندوستان کے تئیں امریکہ کی پالیسی کو واپس ’نِکسن دور‘ میں لے جاتے ہیں تو اس کے لیے سب سے بڑے ذمہ دار مودی ہوں گے

<div class="paragraphs"><p>امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم نریندر مودی / فائل تصویر / Getty Images</p></div>
i
user

آشیش رے

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور نریندر مودی کی دوستی اب باضابطہ طور پر اختتام کو پہنچ گئی ہے۔ کسی بھی وقت، کچھ بھی کرنے کے لیے مشہور امریکی صدر ٹرمپ نے 6 اگست کو اعلان کیا کہ ہندوستان سے آنے والی درآمدات پر 25 فیصد اضافی ٹیرف لگایا جائے گا۔ اس اقدام سے ہندوستانی برآمدات پر مجموعی ڈیوٹی بڑھ کر 50 فیصد ہو گئی ہے۔

ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ سوشیل‘ پر اس فیصلے کی وجوہات بیان کیں۔ ان کے مطابق نئے تعزیری ٹیرف اس لیے لگائے گئے ہیں کیونکہ ’انہیں (ہندوستان کو) اس بات کی پروا نہیں کہ یوکرین میں روسی حملوں میں کتنے لوگ مارے جا رہے ہیں۔‘ ٹرمپ نے ہندوستان پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ روسی خام تیل کو ریفائن کر کے ’کھلے بازار میں بھاری منافع‘ پر فروخت کر رہا ہے۔ غالباً یہی وہ اصل بات ہے جو ٹرمپ کو کھٹک رہی ہے۔

قابل غور بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے نہ تو چین، جو روسی تیل کا سب سے بڑا خریدار ہے اور نہ ہی ترکی، جو ایک اور بڑا خریدار ہے، کو اس طرح کی دھمکی دی، بلکہ انہوں نے تو اپنے سب سے بڑے حریف چین کے ساتھ تجارتی مذاکرات کی مدت میں اضافہ کر دیا۔ اس کے برعکس، وہ کواڈ کے رکن اور بظاہر امریکہ کے اسٹریٹجک شراکت دار ہندوستان کو ڈرا دھمکا رہے ہیں۔ ٹرمپ کے اس تازہ رویے سے امریکہ-ہندوستان تعلقات کے ایک نئے سرد دور میں داخل ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔

مودی کا خاموش رہنا کوئی فائدہ نہیں دے سکا۔ ان کے سفارت کار دن رات ان کے سفارتی نقصان کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ان کوششوں کے کامیاب ہونے کے امکانات کم ہیں۔ امریکی محکمہ خارجہ کے افسران ان کی باتوں پر ہمدردی جتا بھی دیں لیکن ان کے ’بگ باس‘ سننے والے نہیں۔ جب بات روس سے ہندوستان کی تیل و گیس خریداری پر آتی ہے تو امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو اپنے صدر کی زبان بولنے لگتے ہیں۔ ٹرمپ سے نمٹنے کا ایک ہی طریقہ ہے — ڈٹ کر کھڑے رہنا لیکن برازیل کے صدر لولا کے برعکس، جو ٹرمپ کے سامنے جم کر کھڑے رہے، مودی نے نہ ایسا حوصلہ دکھایا اور نہ ہی عزم۔ چنانچہ ٹرمپ انتظامیہ کو یقین ہے کہ جب ٹرمپ دھمکائیں گے تو ہندوستان پیچھے ہٹ جائے گا۔


وجہ کچھ بھی ہو، لگتا ہے کہ ٹرمپ اب مودی کو نیچا دکھانے پر تلے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف، مغربی رہنماؤں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے مودی جس حد تک جھک گئے ہیں، وہ افسوسناک ہے۔ مغربی ممالک نے اس رویے کو برداشت کیا ہے، بلکہ بعض اوقات اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مختلف انعامات دے کر مودی کی خوشامد بھی کی ہے تاکہ ہندوستانی منڈی تک آسان رسائی حاصل ہو سکے، اپنی موجودگی بڑھائی جا سکے یا نئے سودے کیے جا سکیں لیکن یہ سب کچھ مودی کے احترام میں نہیں کیا گیا، جیسا کہ ہندوستانی مین اسٹریم میڈیا دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر ٹرمپ کا موجودہ جارحانہ رویہ محض حکمتِ عملی ہے تو ممکن ہے کہ وقت آنے پر وہ بنیادی ٹیرف کم کر دیں لیکن ’کارنیگی انڈوومنٹ‘ کی ویب سائٹ پر ایک تجزیہ ایک سنگین صورتحال کی نشاندہی کرتا ہے، ’امریکہ-ہندوستان تعلقات کی دوبارہ سیاسی کاری… ایک آہستہ مگر یقینی تباہی ہے۔‘

یقیناً ٹرمپ کے بارے میں منصوبہ بندی کرنا مشکل ہے لیکن ایسا لگتا ہے کہ مودی نے انہیں غلط سمجھا یا پھر ان سے قربت بڑھانے کی خواہش میں اندھے ہو گئے۔ انہوں نے ہندوستان کی آزمودہ خارجہ پالیسی سے ہٹ کر امریکہ کی طرف مکمل جھکاؤ اختیار کیا۔ اپنی ’مضبوط خارجہ پالیسی‘ کا ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ چین ایک پیچیدہ ہمسایہ ہے جسے ہوشیار سفارت کاری سے قابو میں رکھا گیا تھا اور یہ بھی نظرانداز کر دیا کہ اگر ہندوستان، سرد جنگ کے بعد پی وی نرسمہا راؤ کے کثیر جہتی نظریے کو کنارے لگائے گا تو اس سے روس کو رنج پہنچے گا۔

ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا یہ کہنا کہ ہندوستان ’کثیر رُخی‘ یا ’اسٹریٹجک خودمختاری‘ کی طرف بڑھ رہا ہے، محض دکھاوا ہے کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مودی کے اس رویے کو ترک کرنے کی کوششوں میں وہ خود شریک رہے ہیں۔ امریکہ کے ساتھ جے شنکر کی ذاتی وابستگی اپنی جگہ لیکن انہیں علم ہونا چاہیے تھا کہ سرد جنگ کے دور میں سوویت یونین سے بھی زیادہ امریکہ کا یہ ماننا تھا کہ اگر کوئی ملک اس کے ساتھ نہیں یعنی مغربی نظریات کی پیروی نہیں کر رہا، تو وہ اس کے مخالف ہے۔

ہندوستان ایک مخمصے میں پھنس چکا ہے: وہ روس کو ناراض نہیں کر سکتا کیونکہ اس کی فوجی ضروریات کا بڑا انحصار روس پر ہے لیکن یہ تعلق ٹرمپ کو ناراض کرنے کے لیے کافی ہے، جو چاہتے ہیں کہ ہندوستان امریکہ کے حق میں کھل کر جھکاؤ دکھائے۔ یہ مخمصہ مودی کی اپنی پیدا کردہ ہے کیونکہ انہوں نے مغربی ممالک، خاص طور پر واشنگٹن، کو یہ یقین دلایا کہ ہندوستان اب ان کے کیمپ میں ہے اور یہ خارجہ پالیسی کی ایک بڑی غلطی تھی جس سے اب ہندوستان کی پوزیشن مزید کمزور ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔


پاکستان کی واپسی

امریکہ-چین-پاکستان کے درمیان سہ فریقی سمجھوتے کی بنیاد جولائی 1971 میں رکھی گئی تھی۔ اس وقت کے امریکی صدر رچرڈ نکسن کے قومی سلامتی کے مشیر ہنری کسنجر نے پاکستان کے راستے چین کا خفیہ دورہ کیا۔ اسلام آباد نے ثالث کا کردار ادا کیا کیونکہ اس کے دونوں ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات تھے۔ اس وقت امریکہ کا سب سے بڑا دشمن سوویت یونین تھا، جس کے چین کے ساتھ تعلقات 1960 کی دہائی میں بگڑ گئے تھے اور 1969 میں دونوں کے درمیان سات ماہ تک سرحدی جھڑپیں ہوئیں۔ اس دور میں چینی معیشت بدحالی کا شکار تھی۔ کسنجر نے اس کمزوری سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکی سرمایہ کاری کے ذریعے چینی صنعت کاروں کے لیے امریکی منڈی کھولنے کی پیشکش کی۔ اس کا مقصد سوویت یونین اور چین کے کمیونسٹ اتحاد کو توڑنا تھا۔

اس حکمتِ عملی کے بعد ہندوستان کو چار دہائیوں تک امریکہ-چین-پاکستان اتحاد سے نبرد آزما رہنا پڑا، جب تک کہ اسلام آباد/راولپنڈی کا گٹھ جوڑ واشنگٹن کی نظر سے اتر نہیں گیا، کیونکہ اس نے افغانستان میں ’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں امریکہ کو دھوکہ دیا تھا۔

تاہم، چین اور پاکستان کے درمیان تعلقات نہ صرف برقرار رہے بلکہ ’ہمیشہ کے لیے‘ کے نعرے کے ساتھ مزید مضبوط ہو گئے۔ ہندوستان نے چین کے ساتھ 1993 میں سرحدی امن معاہدہ کر کے، بیجنگ کو ہندوستانی منڈی میں مواقع دے کر اور دہشت گردی جیسے معاملات پر مشترکہ موقف اپنا کر اس صورتحال کو کسی حد تک قابو میں رکھا۔ خاص طور پر 2008 میں ہندوستان اور امریکہ کے درمیان تاریخی ایٹمی معاہدے کے بعد چین نے ہندوستان کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ کے رہنما اصولوں سے استثنیٰ دینے پر اپنی مخالفت واپس لے لی۔

اس سال جنوری میں ٹرمپ کی صدر کے طور پر واپسی اور کرپٹو کرنسی، فوسل فیولز اور نایاب معدنیات میں ان کی دلچسپی نے پاکستان کو دوبارہ امریکہ کے قریب کر دیا۔ ٹرمپ کو اپنے حق میں کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ بالواسطہ طور پر ٹرمپ آرگنائزیشن یا ان کے بچوں کو کاروباری مواقع فراہم کیے جائیں۔ ہندوستان کو اس بات کا اندازہ تھا، مگر اس غلط فہمی میں کہ ٹرمپ مودی کا بے حد احترام کرتے ہیں، اس نے فوری کوئی قدم نہ اٹھایا۔ اس دوران پاکستان اپنی چالیں چلتا رہا۔ ’آپریشن سندور‘ کے بعد اس نے ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کر کے اپنی طرف مائل کر لیا۔ ٹرمپ کے لیے خوشامد یقیناً بڑی اہمیت رکھتی ہے۔


قابل ذکر بات یہ ہے کہ امریکہ-پاکستان کے درمیان سفارتی تعلقات میں جمود کے باوجود دونوں ممالک کی افواج کے درمیان دوستانہ تعلقات کبھی ختم نہیں ہوئے۔ بلکہ پاکستانی فوجی افسران کی امریکہ میں تربیت کی بحالی کے بعد یہ تعلق مزید گہرا ہوا۔ دسمبر 2023 میں پاکستان کے آرمی چیف اور حقیقی طاقت رکھنے والے جنرل عاصم منیر نے عمران خان کے دورِ وزارتِ عظمیٰ میں پیدا ہونے والی خلیج کو ختم کرنے کے لیے امریکہ کا دورہ کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ پینٹاگون نے پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون پر دوبارہ عزم کا اظہار کیا اور ’آپریشن سندور‘ سے نمٹنے میں پاکستان کی کوششوں نے اس تعاون کو مزید مضبوط کیا۔

11 جون کو امریکی ایوان نمائندگان کی آرمڈ سروسز کمیٹی کے سامنے امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل مائیکل کُرلا نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں پاکستان امریکہ کا ’’غیر معمولی اتحادی‘‘ رہا ہے اور پاکستانی فوج نے امریکی فراہم کردہ انٹیلی جنس کی بنیاد پر ’کم از کم پانچ داعش-خراسان‘ شدت پسندوں کو گرفتار کیا ہے۔ اسی کے ساتھ انہوں نے بھارت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی بھی وکالت کی۔ داعش-خراسان پر الزام ہے کہ اس نے 2021 میں کابل ایئرپورٹ پر دھماکہ کیا تھا، جس میں 13 امریکی فوجی اور 170 سے زائد افغان شہری مارے گئے تھے۔

کُریلا کے بیان کے کچھ ہی دنوں بعد امریکہ-پاکستان تعلقات میں نرمی کے آثار نظر آنے لگے۔ جنرل منیر کو ٹرمپ کے ساتھ ایک نجی دوپہر کے کھانے پر مدعو کیا گیا، جہاں امریکی صدر نے نئے تعینات شدہ فیلڈ مارشل کو ’انتہائی متاثر کن شخصیت‘ قرار دیا اور ساتھ ہی یہ بھی کہا، ’میں پاکستان سے محبت کرتا ہوں!‘ یہ سب اس وقت ہوا جب مودی حکومت دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہی تھی کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو سرحد پار دہشت گردی کی سرپرستی کرتا ہے۔

کچھ سال پہلے تک ٹرمپ پاکستان پر یہ کہتے ہوئے برس پڑتے تھے کہ وہ ’جھوٹ اور دھوکے کے سوا کچھ نہیں دے سکتا‘ لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ ایران سمیت خلیجی خطے سے نمٹنے میں پاکستان کو ایک اسٹریٹجک امریکی شراکت دار کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اگر ٹرمپ امریکہ کو ہند مخالف نِکسن دور کی پالیسی کی طرف واپس لے جاتے ہیں تو اس میں مودی کا کردار بہت اہم ہوگا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔