جشن وراثت اردو: گاندھی جی کو پیش کی گئی خراج عقیدت

اردو اکادمی کی جانب سے منعقدہ ’جشن وراثت اردو‘ میں چوتھے روز بھی فنکاروں کا جلوہ رہا۔

تصویر محمد تسلیم
تصویر محمد تسلیم
user

محمد تسلیم

نئی دہلی: ہندوستان کی آزادی کی کوئی بھی تاریخ گاندھی جی کے بغیر مکمل تصور نہیں کی جا سکتی ہے۔ انھوں نے عدم تشدد کا نہ صرف نعرہ دیا، بلکہ پوری زندگی اس پر عمل پیرارہے۔ ان کی 150ویں برسی کے موقع پر ملک بھر میں متعدد پروگرام منعقد کیے گئے۔ چند روز قبل گاندھی جی کی یا د میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اردو اکادمی، دہلی کی جانب سے ایک شاندار مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جشن وراثتِ اردو: وراثت میلہ میں خطاطی کا چھایا خمار

جشن وراثت اردو میں دہلی آرکائیوز کی جانب سے دہلی کی تصایر جو عام لوگوں کے لیے آویزاں کی گئی ہیں، ان میں گاندھی جی کو کئی اعتبار سے اولیت کا درجہ حاصل ہے۔آرکائیوز کے اسٹال پر گاندھی جی کی جو تصویریں لگائی گئی ہیں، وہ اس لیے بھی ناظرین کے لیے دلچسپی کا سبب ہیں کہ ان تصاویرمیں گاندھی جی مختلف شخصیات کے ساتھ موجودہیں اور ہر تصویر کی ساتھ اس کی تفصیل بھی لکھی ہوئی ہیں، تاکہ لوگ ہندوستانی تاریخ کے ایک اہم باب سے واقف ہو سکیں۔

جشن وراثت اردو میں گاندھی جی کو یہ ایک بہترین خراج عقیدت کی گئی ہے۔ گاندھی جی نے قومی یکجہتی کے لیے جو کام کیے ہیں، اسی قومی یکجہتی کے ماحول کو قائم رکھنے کے لیے اس طرح کے پروگرام کا انعقاد کیا جا تا ہے، تاکہ آپسی بھائی چارہ کو مزید فروغ حاصل ہو۔ جب اس طرح کے پروگرام کا انعقاد کیا جاتا ہے تو لوگوں کو ایک دوسرے سے روبرو ہونے کا موقع بھی ملتا ہے۔

اردو کے فروغ اور ترقی کے لیے مختلف قسم کے اسٹال لگائے گئے ہیں، ساتھ ہی اردو کے تمام پہلوؤں کی ترجمانی کے لیے ایک نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا ہے۔جشن وراثت اردو کے انعقاد کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ دہلی کی تہذیب وثقافت اور اردوسے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کو زیادہ سے زیادہ شامل کیا جائے، اکادمی اپنے اسی مقصد کے لیے جشن وراثت اردو کا ہر سال پابندی سے انعقاد کرتی ہے۔

6 روزہ جشن وراثت اردو میں متنوع قسم کے ادبی اور ثقافتی پروگرام سے لوگ خوب محظوظ ہو رہے ہیں۔ اس جشن میں ملک بھر کے اہم فنکاروں نے لوگوں کو اپنے فن سے خوب لطف اندوز کیا۔ سامعین نے بھی ان فنکاروں کی دل کھول کر حوصلہ افزائی کی۔کناٹ پیلس ہمیشہ ہی لوگوں کی توجہ کا مرکز رہا ہے، لیکن ان دنوں کناٹ پیلس کا سینٹرل پارک اردو تہذیب و ثقافت کا ایسا گہوارہ بنا ہوا ہے کہ لوگ اس فضا میں اردو کی خوشبو کو صاف محسوس کر رہے ہیں۔ کثیر تعداد میں لوگوں کی شرکت اس بات کی غماز ہے کہ جشن وراثت اردو کے انعقاد کا جو مقصد ہے، اس میں اردو اکادمی کو بھر پور کامیابی ملی ہے۔جشن وراثت اردو میں اردو اکادمی کے وائس چیئر مین پروفیسر شہپر رسول اور اکادمی سکریٹری ایس۔ ایم۔ علی نے فنکاروں کا پھولوں سے استقبال کیا اور انھیں اردو اکادمی کا نشان بطور نشانی پیش کیا۔

دوپہربارہ بجے اس پروگرام کے چوتھے دن کا آغاز قصہ’’سیرِ پرانی دلی کا‘‘ سے ہوا۔ جسے ٹیلنٹ گروپ نے پیش کیا۔ اس گروپ میں چھوٹے چھوٹے بچوں نے بہترین فنکاری کا ثبوت دیا۔ناظرین نے ان بچوں کی خوب حوصلہ افزائی کی۔ محفل قوالی کے تحت چنچل بھارتی اور ان کی ٹیم(دہلی) نے ایک سماں باندھ دیا، ساتھ ہی لوگوں کی فرمائش نے اس محفل قوالی کو اور بھی دلچسپ بنا دیا۔روداد شیریں(موسیقی کے ساتھ داستان)کی پیشکش وسعت اقبال خاں (دہلی) نے کی۔روداد شیرین سے جہاں ایک طرف تاریخ و تہذیب سے سامعین آشنا ہوئے، وہیں کچھ دلچسپ کلام سے لوگوں کو خوب محظوظ ہونے کا موقع ملا۔ اس پروگرام میں وسعت اقبال خان نے عورت کی خود شناسی کو بہت خوبی سے بیان کیا ہے۔ یہ پروگرام اپنے طرز کا اس اعتبار سے بالکل مختلف تھا، جسے لوگوں نے خوب پسند کیا۔

محفل قوالی کوچاند قادری وہمنوا (دہلی) نے پیش کیا۔ محفل قوالی کے سامعین کی فرمائش کااس گروپ نے بھر پورخیال رکھا۔ صوفی محفل میں پوجا گائتونڈے (ممبئی) نے اپنے فن کے جوہر دکھائے۔صوفی محفل نے شام کو اور بھی پر نور بنا دیا۔

آخر میں معروف غزل گو احمد حسین محمد حسین(جے پور)نے اس پورے پروگرام میں چار چاند لگا دیئے جس سے سامعین مسحور ہوگئے ۔ اپنی غزل گائکی کی وجہ سے وہ کافی مشہور ہیں۔ احمد حسین محمد حسین نے اپنے پسندیدہ کلام کو سنا یا، ساتھ ہی لوگوں نے کچھ فرمائشیں بھی کیں، جس کا دونوں فنکاروں نے خیال رکھا۔ اس طرح گلابی موسم کا لوگوں نے خوب لطف اٹھایا اور چوتھے روز بھی جشن وراثت اردو کے پروگرام کے تمام حصے میں لوگوں کی بھر پور شرکت رہی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔