سپریم کورٹ پہنچا ’پیگاسس معاملہ‘، ایس آئی ٹی سے جانچ کا مطالبہ، پی ایم مودی اور سی بی آئی کو بنایا گیا فریق

پیگاسس پروجیکٹ معاملہ میں ایک عرضی سپریم کورٹ میں داخل کی گئی ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ عدالتی نگرانی میں اس کی جانچ ہو۔ عرضی میں اس واقعہ کو جمہوریت پر سنگین حملہ قرار دیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کی تصویر، آئی اے این ایس
سپریم کورٹ کی تصویر، آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

پیگاسس جاسوسی واقعہ ہندوستانی جمہوریت، عدلیہ اور ملک کی سیکورٹی پر سنگین حملہ ہے، اس لیے اس معاملے کی عدالتی نگرانی میں خصوصی جانچ ٹیم (ایس آئی ٹی) کے ذریعہ غیر جانبدارانہ جانچ کی جانی چاہیے۔ یہ مطالبہ وکیل ایم ایل شرما کے ذریعہ سپریم کورٹ میں جمعرات کو داخل ایک عرضی میں کیا گیا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ پیگاسس پروجیکٹ سے انکشاف ہوا ہے کہ اسرائیلی سافٹ ویئر پیگاسس کا استعمال کر ملک کے صحافیوں، جج، عدلیہ اور آئینی افسران، کارکنان، اپوزیشن لیڈران اور دیگر لوگوں کی جاسوسی کی گئی یا کرنے کی کوشش کی گئی۔

سینئر وکیل منوہر لال شرما نے اپنی عرضی میں کہا ہے کہ ’’پیگاسس واقعہ نہ صرف فکر کا موضوع ہے بلکہ یہ ملک کی جہوریت، سیکورٹی اور عدلیہ پر سنگین حملہ بھی ہے۔‘‘ اس عرضی کو ابھی منظور نہیں کیا گیا ہے اور غور طلب بات یہ ہے کہ اس عرضی میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ ہی سی بی آئی کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔ عرضی میں بتایا گیا ہے کہ اس سے پہلے ایم ایل شرما نے سی بی آئی کے پاس اس معاملے میں ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی تھی لیکن رپورٹ درج نہیں کی گئی۔


واضح رہے کہ ایم ایل شرما اہم ایشوز پر عرضیاں داخل کرتے رہے ہیں۔ انھوں نے پیگاسس کے سلسلے میں داخل عرضی میں عدالت سے دو مطالبات کیے ہیں۔ انھوں نے ایک تو اس معاملے کی جانچ کے لیے ایس آئی ٹی تشکیل کر عدالت کی نگرانی میں جانچ کرانے کی اپیل کی ہے، اور اس معاملے میں قصوروار پائے جانے والے سبھی افراد کو تعزیرات ہند کی دفعہ 408، 409 (دھوکہ دینا)، دفعہ 120 بی (مجرمانہ سازش کرنا)، سرکاری رازداری قانون 1923 کی دفعہ 3 (جاسوسی کے لیے سزا دینا) اور انفارمیشن ٹیکنالوجی قانون 2000 کی مختلف دفعات میں معاملہ درج کیے جانے کی اپیل کی ہے۔

عرضی میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کی اجازت کے بغیر قومی فنڈ سے پیگاسس کی خرید آئین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ عرضی میں سوال کیا گیا ہے کہ کیا آئین وزیر اعظم اور ان کے وزراء کو ان کے سیاسی مفادات کے لیے ہندوستان کے شہریوں کی جاسوسی کرنے کی اجازت دیتا ہے؟ عرضی میں آگے سوال کیا گیا ہے کہ کیا ہندوستان کے عام شہری، اپوزیشن لیڈروں، عدلیہ کے ججوں اور دیگر لوگوں کی جاسوسی کرنا شق 21 کی خلاف ورزی کے ساتھ او ایس ایکٹ 1923 کی دفعہ 3 کے ساتھ ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ 2000 کی دفعہ 65، 66 اور 72 کے تحت جرم کو متوجہ نہیں کرتا؟

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */