مودی حکومت میں ٹول ٹیکس کا مطلب ’جیب پر ڈاکہ‘!

ملک بھر میں تقریباً 400 ٹول پلازہ ہیں، لیکن حکومت کے پاس کوئی نگرانی سسٹم نہیں ہے جس سے پتہ چل سکے کہ کس ہائی وے پر روزانہ کتنی گاڑیاں گزرتی ہیں اور ان سے کتنی رقم وصول ہو رہی ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

انل کمار چوہان

مرکز کی مودی حکومت قومی شاہراہ کی توسیع تو کر رہی ہے لیکن ٹول ٹیکس وصولی کا عمل درست نہیں کر رہی۔ اس وجہ سے شاہراہ کا استعمال کرنے والوں کی جیب تو خوب ڈھیلی ہو رہی ہے لیکن سرکاری خزانہ میں اتنا اضافہ نہیں ہو رہا جتنا کہ ہونا چاہیے تھا۔

ٹول ٹیکس کی وصولی اٹل بہاری واجپئی کے وزیر اعظم رہتے ہوئے شروع کی گئی تھی۔ اس وقت کہا گیا تھا کہ اس سے چوڑی اور بہتر سڑکیں بنیں گی اور اس میں جتنی رقم کا سرمایہ کیا جائے گا، ٹول ٹیکس میں اتنی رقم وصول کیے جانے کے بعد اس شاہراہ کو ٹول فری کر دیا جائے گا۔ لیکن نریندر مودی حکومت نے یہ وقت پورا ہونے کے بعد رکھ رکھاؤ، چوڑا کاری اور مرمت کے نام پر غیر معینہ مدت تک ٹول ٹیکس لگتے رہنے کا قانون بنا دیا ہے۔


ملک بھر میں تقریباً 400 ٹول پلازہ ہیں۔ لیکن حکومت کے پاس کوئی نگرانی سسٹم نہیں ہے جس سے پتہ چل سکے کہ کس شاہراہ پر روزانہ کتنی پرائیویٹ یا کاروباری گاڑیاں گزرتی ہیں، اور ان سے کتنی رقم وصولی جا رہی ہے۔ پہلے سرکاری ملازمین آنے جانے والی گاڑیوں کی گنتی کرتے تھے، اس کی تفصیل حکومت کے پاس ہوتی تھی کہ ہر شاہراہ پر کتنی گاڑیاں چلتی ہیں۔ لیکن ٹول پلازہ کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ہی یہ سسٹم ختم کر دیا گیا۔ اب حکومت ٹول کمپنیوں کے ذریعہ بتائی گئی رقم کو ہی درست مان لیتی ہے۔

اس میں کس طرح گھوٹالہ ہو رہا ہے، اس کی ایک مثال دیکھیے۔ سرکاری اعداد و شمار میں گزشتہ سال 19-2018 میں 22 ہزار کروڑ روپے کی ٹول ٹیکس وصولی بتائی گئی۔ ملک میں تقریباً 21 کروڑ گاڑیاں ہیں۔ ان میں سات کروڑ ٹرک، بس اور کاریں ہیں۔ اس سے ہی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سالانہ ٹول وصولی کا اصل اعداد و شمار کیا ہو سکتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹول کمپنیوں اور افسران کی ملی بھگت سے 40 فیصد ٹول ٹیکس کی چوری ہر سال ہوتی ہے۔


سرکار نے آج تک کوئی سروے نہیں کرایا ہے کہ ٹول سسٹم میں کوئی چوری یا بے ضابطگی تو نہیں ہو رہی ہے۔ نومبر 2017 میں سبھی ٹول پلازہ کو انٹیگریٹیڈ ٹول مینجمنٹ سسٹم (آئی ٹی ایم ایس) تکنیک لگانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس سے ہر ٹول پلازہ کی دہلی میں بیٹھ کر آن لائن نگرانی ممکن تھی۔ این ایچ اے آئی کے ہائی وے آپریشن ڈویژن نے اس پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ اس میں ہر ٹول پلازہ کو ایک یونک آئی ڈی دینے، ہر پلازہ کے ہر لین کی الگ آئی ڈی ہونے اور سبھی ٹول پلازہ کے کمپیوٹر سسٹم کو انٹرنیٹ کے ذریعہ دہلی واقع این ایچ اے آئی ہیڈ کوارٹر کے سرور سے جوڑنے کا منصوبہ تھا۔ لیکن بعد میں سرکار نے اس منصوبہ کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا۔

مودی حکومت نے اسے درست کرنے کا وعدہ تو کیا لیکن اب تک تو کہیں کوئی راحت نہیں نظر آ رہی۔ سڑک ٹرانسپورٹیشن اور قومی شاہراہ وزارت کے افسر بھی مانتے ہیں کہ 2008 میں نافذ کی گئی ٹول ٹیکس پالیسی بین الاقوامی پیمانوں پر کھری نہیں ہے۔ دو لین (پیو شولڈر)، چار لین، چھ لین قومی شاہراہوں پر گاڑیوں سے فی کلو میٹر ٹیکس کی شرحیں یکساں رکھی گئیں، جب کہ دو لین میں چار اور چھ لین کے مقابلے سہولیات کم ہیں اور گاڑیوں کی رفتار بھی دھیمی ہو جاتی ہے۔ حکومت نے پالیسی کو درست کرنے کے لیے نومبر 2018 میں بوسٹن کنسلٹنگ گروپ کا تقرر کیا۔ اس گروپ کو دو ماہ میں اپنی رپورٹ سونپنی تھی لیکن اب تک اس نے رپورٹ فائنل نہیں کی ہے۔


حکومت نے 2017 میں ٹول ٹیکس چوری روکنے کے لیے سبھی ٹول پلازہ پر زور و شور سے الیکٹرانک ٹول کلیکشن سسٹم (ای ٹی سی) شروع کیا تھا۔ اس کے تحت نئی پرانی گاڑیوں میں فاسٹ ٹیگ لگائے جانے تھے۔ گاڑی کے وِنڈ اسکرین پر لگے فاسٹ ٹیگ سے چلتے ہوئے ٹول ٹیکس ادا کیا جا سکتا ہے۔ سڑک ٹرانسپورٹیشن وزارت نے نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے کہا کہ 2 دسمبر 2017 سے سبھی نئی گاڑیوں میں گاڑی ساز کمپنیوں کے لیے فاسٹ ٹیگ لگانا لازمی ہوگا۔

سرکار نے ٹول کمپنیوں، پرائیویٹ اور کاروباری گاڑی مالکوں پر فاسٹ ٹیگ لگانے کا کافی دباؤ ڈالا۔ لیکن 2018 تک محض 20 لاکھ گاڑیوں پر ہی فاسٹ ٹیگ لگایا جا سکا ہے، جب کہ کار، ٹرک، بسوں کی تعداد سات کروڑ ہے۔


وزیر مالیات رہتے ہوئے ارون جیٹلی نے عام بجٹ 19-2018 میں ’پے اینڈ یوز‘ پالیسی کا اعلان کیا تھا۔ اس میں دوری کے مطابق گاڑیوں سے نیشنل ٹول ہائی وے پر ٹول ٹیکس لیا جانا تھا۔ اس کا پائلٹ پروجیکٹ مارچ 2018 میں شروع ہوا۔ لیکن اسے اب تک نافذ نہیں کیا جا سکا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔