راہل گاندھی-ابھجیت بنرجی ڈائیلاگ: طلب بڑھانے کے لیے لوگوں کے ہاتھوں میں دیا جائے پیسہ، تبھی پٹری پر آئے گی معیشت

نوبل اعزاز یافتہ ماہر معیشت ڈاکٹر ابھجیت بنرجی کا ماننا ہے کہ معیشت کو بہتر بنانے کے لیے لوگوں کے ہاتھ میں پیسہ دے کر طلب بڑھانے کی سمت میں حکومت کو سوچنا ہوگا۔

user

قومی آوازبیورو

ہندوستان میں اس وقت لاک ڈاؤن کا تیسرا دور چل رہا ہے۔ اس دوران معیشت بری طرح پٹری سے اتر چکی ہے، غریبوں کا حال برا ہے، مہاجر مزدوروں کی حالت خراب ہے، چھوٹے اور درمیانے صنعت دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہیں۔ ایسے میں کیا تدبیریں ہو سکتی ہیں کہ ملک کو پھر سے ترقی کی راہ پر لایا جا سکے، غریبوں کی حالت بہتر ہو سکے، مہاجر مزدوروں کو روزگار مل سکے اور کام دھندے دوبارہ شروع ہو سکیں۔ انہی سب ایشوز پر کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی دنیا کے مشہور و معروف ماہرین معیشت سے ڈائیلاگ کر رہے ہیں تاکہ ان سارے ایشوز اور مسائل کا کوئی ٹھوس، مدلل اور تجرباتی حل نکل سکے۔ اس کے لیے راہل گاندھی نے گزشتہ ہفتہ آر بی آئی کے سابق گورنر رگھو رام راجن سے بات چیت کی تھی، اور آج انھوں نے معیشت کے شعبہ میں نوبل انعام سے سرفراز ڈاکٹر ابھجیت بنرجی سے بات چیت کی۔ 'قومی آواز' کے قارئین کے لیے پیش ہے دونوں کے درمیان ہوئی پوری بات چیت کا متن...

راہل گاندھی: سب سے پہلے تو آپ کا بہت بہت شکریہ اپنا قیمتی وقت دینے کے لیے۔ آپ بہت مصروف رہتے ہیں۔

ڈاکٹر بنرجی: نہیں... نہیں... آپ سے زیادہ نہیں۔

راہل گاندھی: یہ تھوڑا خواب کی طرح لگتا ہے کہ سب کچھ بند ہے۔

ڈاکٹر بنرجی: ہاں، ایسا ہی ہے، خواب کے جیسا، لیکن خوفناک۔ دراصل یہ ایسا ہے کہ کسی کو کچھ پتہ نہیں ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔

راہل گاندھی: آپ کے تو بچے ہیں، تو انھیں اس سب کو دیکھ کر کیسا لگ رہا ہے؟

ڈاکٹر بنرجی: میری بیٹی تھوڑا پریشان ہے۔ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ جانا چاہتی ہے۔ میرا بیٹا چھوٹا ہے اور وہ تو بہت خوش ہے کہ ہر وقت اس کے والدین ساتھ میں ہیں۔ اس کے لیے تو یہ کچھ بھی غلط نہیں ہے۔

راہل گاندھی: لیکن وہاں بھی پورا ہی لاک ڈاؤن ہے۔ تو وہ باہر تو جا نہیں سکتے؟

ڈاکٹر بنرجی: نہیں، نہیں، ایسا نہیں ہے، ہم باہر جا سکتے ہیں۔ ٹہلنے پر کوئی پابندی نہیں ہے، سائیکلنگ اور ڈرائیو کرنے پر بھی روک نہیں ہے۔ بس اتنا ہے کہ ساتھ ساتھ نہیں جا سکتے، شاید اس پر پابندی ہے۔


راہل گاندھی: اس سے پہلے کہ میں شروع کروں، میں آپ سے ایک خاص بات جاننا چاہتا ہوں۔ آپ کو نوبل انعام ملا۔ کیا آپ کو امید تھی؟ یا پھر یہ بالکل اچانک ہو گیا؟

ڈاکٹر بنرجی: بالکل اچانک تھا یہ۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایسی چیز ہے کہ جس کے بارے میں سوچتے رہو تو آپ اسے بہت زیادہ من میں لے کر بیٹھ جاتے ہو۔ اور میں چیزوں کو من میں لے کر بیٹھنے والا شخص نہیں ہوں، خاص طور سے ان چیزوں کے لیے جن کا میری زندگی پر کوئی فوری اثر نہیں پڑتا ہے۔ مجھے کسی چیز کی امید نہیں رہتی ہے... یہ اچانک سے سرپرائز تھا میرے لیے۔

راہل گاندھی: ہندوستان کے لیے یہ ایک بڑی بات تھی، آپ نے ہمیں فخر کا موقع میسر کیا ہے۔

ڈاکٹر بنرجی: شکریہ... ہاں یہ بڑی بات ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ یہ بڑی بات نہیں ہے، میرا ماننا ہے کہ آپ اسے من میں لے کر بیٹھ جاتے ہو، لیکن ایسا نہیں ہے کہ کوئی عمل ہے جو ہر کسی کو سمجھ آئے۔ تو، ہو جاتی ہیں چیزیں۔

راہل گاندھی: تو جو کچھ اہم باتیں جن پر میں آپ کے ساتھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں، ان میں سے ایک ہے کووڈ اور لاک ڈاؤن کا اثر اور اس سے غریب لوگوں کی معاشی تباہی۔ ہم اسے کس طرح دیکھیں۔ ہندوستان میں کچھ وقت سے ایک پالیسی فریم ورک ہے، خصوصاً جب ہم یو پی اے میں تھے تو ہم غریبوں کو ایک موقع دیتے تھے، مثلاً منریگا، کھانے کے حقوق وغیرہ... اور اب یہ بہت سارا کام جو ہوا تھا، اسے درکنار کیا جا رہا ہے کیونکہ وبا درمیان میں آ گئی ہے اور لاکھوں لاکھوں لوگ غریبی میں بکھرتے جا رہے ہیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ اس کے بارے میں کیا کیا جائے؟

ڈاکٹر بنرجی: میری نظر میں یہ دو الگ باتیں ہیں۔ ایک طرح سے میں سوچتا ہوں کہ اصل مسئلہ جو فوراً ہے وہ ہے کہ یو پی اے نے جو اچھی پالیسیاں بنائی تھیں، وہ اس وقت ناکافی ہیں۔ حکومت نے ایک طرح سے انھیں اختیار کیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اس پر کوئی تفریق والی نااتفاقی تھی۔ یہ بالکل واضح ہے کہ جو کچھ بھی ہو سکتا تھا اس کے لیے یو پی اے کی پالیسیاں ہی کام آتیں۔

مشکل کام یہ ہے کہ آخر ان لوگوں کے لیے کیا کیا جائے جو ان پالیسیوں یا منصوبوں کا حصہ نہیں ہیں۔ اور ایسے بہت سے لوگ ہیں، خصوصاً مہاجر مزدور۔ یو پی اے حکومت کے آخری سال میں جو منصوبے لائے گئے تھے کہ آدھار کو ملک بھر میں نافذ کیا جائے اور اس کا استعمال پی ڈی ایس اور دوسرے منصوبوں کے لیے کیا جائے۔ آدھار سے جڑے فائدے آپ کوملیں گے، آپ کہیں بھی ہوں۔ اس منصوبہ کو اس وقت نافذ کرنے کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ اگر ہم پیچھے مڑ کر دیکھیں تو اس سے بہت سارے لوگوں کو مصیبت سے بچایا جا سکتا تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو لوگ مقامی راشن کی دکان پر جاتے اور اپنا آدھار دکھا کر کہتے کہ میں پی ڈی ایس کا منافع اٹھانے والا ہوں۔ مثلاً بھلے ہی میں مالدہ یا دربھنگہ یا کہیں کا بھی رہنے والا ہوں، لیکن میں ممبئی میں اس کا فائدہ لے سکتا ہوں۔ بھلے ہی میری فیملی مالدہ یا دربھنگہ میں رہتا ہو، لیکن یہاں میرا دعویٰ ہے۔ اور ایسا ن ہیں ہوا تو اس کا مطلب یہی ہے کہ بہت سے لوگوں کے لیے کوئی سسٹم ہی نہیں ہے۔ وہ منریگا کے بھی اہل نہیں رہے کیونکہ ممبئی میں تو منریگا ہے نہیں، اور پی ڈی ایس کا بھی حصہ نہیں بن پائے کیونکہ وہ مقامی باشندہ نہیں ہیں۔

دراصل مسئلہ یہ ہے کہ فلاحی منصوبوں کا ڈھانچہ بناتے وقت سوچ یہ تھی کہ اگر کوئی اپنے آبائی شہر میں نہیں ہے تو مان لیا گیا کہ وہ کام کر رہا ہے اور اسے آمدنی ہو رہی ہے۔ اور اسی وجہ سے یہ سسٹم منہدم ہو گیا۔ اس کے بعد سوال ہے غریبی کا۔ مجھے نہیں پتہ کہ اگر معیشت بہتر بھی ہوتی ہے تو اس کا غریبی پر کوئی خاطرخواہ اثر ہوگا۔ بڑی فکر یہ ہے کہ معیشت کیسے بہتر ہوگی، اور خاص طور سے جس طرح یہ بیماری وقت لے رہی ہے اور جو طریقے اختیار کیے جا رہے ہیں، اس میں۔ میرا ماننا ہے کہ ہمیں پرامید ہونا چاہیے کہ ملک کی معاشی حالت بہتر ہوگی، بس یہ ہے کہ صحیح فیصلے لیے جائیں۔


راہل گاندھی: لیکن اس میں سے بیشتر کو چھوٹی اور درمیانی صنعتوں اور کاروباروں میں کام ملتا ہے۔ انہی صنعتوں اور کاروباروں کے سامنے نقدی کا مسئلہ ہے۔ ان میں سے بہت سے کام دھندے اس بحران میں دیوالیہ ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں ان کام دھندوں کے معاشی نقصان کا ان سے سیدھا تعلق ہے کیونکہ انہی میں سے بہت سے کاروبار ان لوگوں کو روزگار-ملازمت دیتے ہیں۔

ڈاکٹر بنرجی: یہی وجہ ہے کہ ہم جیسے لوگ کہتے ہیں کہ پیکیج دیا جائے۔ امریکہ یہی کر رہا ہے، جاپان-یوروپ یہی کر رہے ہیں۔ ہم نے ابھی تک اس بارے میں کچھ فیصلہ نہیں کیا ہے۔ ہم اب بھی صرف جی ڈی پی کے 1 فیصد کی بات کر رہے ہیں۔ امریکہ نے جی ڈی پی کے 10 فیصد کے برابر پیکیج دیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ایم ایس ایم ای سیکٹر کے لیے ہم آسانی سے کر سکتے ہیں، اور وہ صحیح بھی ہوگا کہ ہم کچھ وقت کے لیے قرض وصولی پر روک لگا سکتے ہیں۔ ہم اس سے زیادہ بھی کر سکتے ہیں۔ ہم یہ بھی کر سکتے ہیں کہ اس سہ ماہی کے قرض کی ادائیگی رد کر دی گئی ہے اور حکومت اس کی ادائیگی کرے گی۔ تو آپ اس سے زیادہ بھی کر سکتے ہیں۔ صرف قرض کی ادائیگی کو آگے پیچھے کرنے کی جگہ اسے معاف ہی کر دیا جانا درست رہے گا۔ لیکن اس سے بھی آگے یہ صاف نہیں ہے کہ کیا صرف ایم ایس ایم ای کو ہی ہدف بنانا درست رہے گا۔ ضرورت تو طلب بڑھانے کی ہے۔ لوگوں کے ہاتھ میں پیسہ ہونا چاہیے تاکہ وہ خریداری کر سکیں، اسٹورس میں جائیں، کنزیومر گڈس خریدیں۔ ایم ایس ایم ای کے کافی پروڈکٹس ہیں جنھیں لوگ خریدتے ہیں، لیکن وہ خرید نہیں رہے ہیں۔ اگر ان کے پاس پیسہ ہو اور آپ پیسہ دینے کا وعدہ کرو تو یہ ممکن ہے۔ پیسہ ہے نہیں۔ اگر آپ ریڈ زون میں ہو، یا جہاں بھی لاک ڈاؤن ہٹایا جا رہا ہے تو اگر آپ کے اکاؤنٹس میں 10 ہزار روپے ہیں تو آپ خرچ کر سکتے ہو۔ معیشت کو بہتر بنانے کے لیے خرچ کرانا سب سے آسان طریقہ ہے۔ کیونکہ اس سے ایم ایس ایم ای کے ہاتھ میں بھی پیسہ آئے گا، وہ بھی خرچ کریں گے، اور اس طرح ایک سلسلہ بن جائے گا۔

راہل گاندھی: یعنی ہم ایک طرح سے 'نیائے' منصوبہ کی بات کر رہے ہیں، یعنی ڈائریکٹ کیش ٹرانسفر جو لوگوں تک سیدھے پہنچے۔

ڈاکٹر بنرجی: بالکل۔ یہ صرف غریبوں کے لیے ہی ہو، اس پر بحث ہو سکتی ہے۔ میں تو بڑی بات کہہ رہا ہوں... میرا ماننا ہے کہ ٹارگیٹنگ ہی سب سے اہم ہوگی۔ آپ ایک بحران کے درمیان ہدف طے کر رہے ہو۔ ایسے بھی لوگ ہوں گے جن کی دکان 6 ہفتہ سے بند ہے اور وہ غریب ہو گیا ہے۔ مجھے نہیں پتہ کہ ایسے لوگوں کی شناخت کیسے ہوگی۔ میں تو کہوں گا کہ آبادی کے نچلے 60 فیصد کو ہدف مان کر انھیں پیسے دینے چاہئیں، اس سے کچھ برا نہیں ہوگا۔ ہم انھیں پیسہ دیں گے، انھیں ضرورت ہے، وہ خرچ کریں گے، اس کا ایک اچھا اثر ہوگا۔ میں آپ کے مقابلے اس میں کچھ اور جارحانہ انداز چاہتا ہوں، میں چاہتا ہوں کہ پیسہ غریبوں سے آگے جا کر بھی لوگوں کو دیا جائے۔

راہل گاندھی: تو آپ لوگوں کی بڑے پیمانے پر گروپنگ کی بات کر رہے ہیں سیدھے سیدھے۔ یعنی جتنا جلدی ممکن ہو طلب کوبڑھانا چاہیے۔

ڈاکٹر بنرجی: بالکل۔ میں یہی کہہ رہا ہوں۔ بحران سے پہلے سے میں یہی کہہ رہا ہوں کہ طلب کا مسئلہ ہمارے سامنے ہے۔ اور اب تو یہ مزید بڑا مسئلہ ہو گیا ہے، کیونکہ یہ غیر معمولی ہے۔ میرے پاس پیسہ نہیں ہے، میں خریداری نہیں کروں گا۔ کیونکہ میری دکان بند ہو چکی ہے۔ اور میری دکان بند ہو چکی ہے تو میں آپ سے بھی کچھ نہیں خریدوں گا۔


راہل گاندھی: مجھے لگتا ہے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ جو بھی کرنا ہے اسے تیزی سے کرنے کی ضرورت ہے۔ جتنا جلدی کر پائیں گے اتنا ہی اثردار ہوگا۔ یعنی ہر سیکنڈ جو گزر رہا ہے وہ نقصان کو بڑھا رہا ہے۔

ڈاکٹر بنرجی: آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں۔ میں نہیں چاہتا کہ ہم مدد سے پہلے ہر کسی کی اہلیت دیکھیں کہ وہ اس کا اہل ہے کہ نہیں۔ میں مانتا ہوں کہ ہم سپلائی اور ڈیمانڈ کی ایک بے میل زنجیر کھڑی کر لیں گے، کیونکہ پیسہ تو ہم نے دے دیا لیکن ریڈ زون میں ہونے کی وجہ سے ریٹیل سیکٹر تو بند ہے۔ اس لیے ہمیں بہتر طریقے سے سوچنا ہوگا کہ جب آپ خریداری کے لیے باہر جائیں تبھی آپ کو پیسہ ملے نہ کہ پہلے سے۔ یا پھر حکومت وعدہ کرے کہ آپ پریشان نہ ہوں، آپ کو پیسہ ملے گا اور بھوک سے مرنے کی نوبت نہیں آئے گی، تاکہ آپ کے پاس کچھ بچت رہ سکے۔ اگر لوگوں کو یہ بھروسہ دیا جائے کہ دو مہینے یا جب تک لاک ڈاؤن ہے، ان کے ہاتھ میں پیسہ رہے گا، تو وہ پریشان نہیں ہوں گے اور خرچ کرنا چاہیں گے۔ ان میں سے کچھ کے پاس اپنی بچت ہوگی۔ اس لیے جلد بازی کرنا بھی ٹھیک نہیں ہوگا، کیونکہ ابھی تو سپلائی ہی نہیں ہے۔ ایسے میں پیسہ دے بھی دیں تو وہ بے کار ہوگا، مہنگائی الگ بڑھے گی۔ اس گزارش کے ساتھ، ہاں جلدی فیصلہ لینا ہوگا۔

راہل گاندھی: یعنی لاک ڈاؤن سے جتنا سے جتنا جلدی باہر آ جائیں وہ بہتر ہوگا۔ اس کے لیے ایک پالیسی کی ضرورت ہوگی، اس کے لیے کچھ معاشی سرگرمیاں شروع کرنی ہوں گی۔ نہیں تو پیسہ بھی بے کار ہی ثابت ہوگا۔

ڈاکٹر بنرجی: لاک ڈاؤن سے کتنا جلدی باہر آئیں، یہ سب بیماری پر منحصر کرتا ہے۔ اگر بہت سارے لوگ بیمار ہو رہے ہیں تو لاک ڈاؤن کیسے ختم ہوگا۔ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں کہ ہمیں بیماری کی رفتار کو قابو کرنا ہوگا اور اس پر نظر رکھنی ہوگی۔

راہل گاندھی: ہندوستان کے تعلق سے جو دوسری اہم بات ہے وہ ہے کھانے کا ایشو، اور اس کے اسکیل کی بات۔ بے شمار لوگ ایسے ہیں جن کے پاس راشن کارڈ نہیں ہے۔ ایک دلیل یہ ہے کہ گوداموں میں جو کچھ بھرا ہوا ہے اسے لوگوں کو دے دیا جائے، کیونکہ فصل کا موسم ہے اور نئی فصل سے یہ پھر سے بھر جائیں گے۔ تو اس پر جوش کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔

ڈاکٹر بنرجی: دراصل میں نے، رگھو رام راجن اور امرتیہ سین نے ایک پیپر لکھا تھا۔ اس میں یہی بات کہی تھی کہ جس کو بھی ضرورت ہے اسے غیر مستقل راشن کارڈ دے دیا جائے۔ اصل میں دوسرے راشن کارڈ کو الگ ہی کر دیا جائے، صرف غیر مستقل راشن کارڈ کو ہی منظوری دی جائے۔ جس کو بھی چاہیے اسے یہ مل جائے۔ شروع میں تین مہینے کے لیے اور اس کے بعد ضرورت ہو تو رینیو کر دیا جائے، اور اس کی بنیاد پر راشن دیا جائے۔ جو بھی مانگنے آئے اسے راشن کارڈ دے دو اور اسے بینیفٹ ٹرانسفر کی بنیاد بنا لو۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمارے پاس مناسب ذخیرہ ہے، اور ہم کافی وقت تک اس منصوبہ کو چلا سکتے ہیں۔ ربیع کی فصل اچھی ہوئی ہے تو بہت سا اناج (گیہوں، چاول) ہمارے پاس ہے۔ کم از کم ہم گیہوں اور چاول تو دے سکتے ہیں۔ مجھے نہیں پتہ ہے کہ ہمارے پاس مناسب مقدار میں دال ہے یا نہیں۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ حکومت دال کا بھی وعدہ کرے۔ کھانے کے تیل کا بھی انتظام ہو۔ لیکن ہاں، اس کے لیے ہمیں غیر مستقل راشن کارڈ ہر کسی کو جاری کرنے چاہئیں۔

راہل گاندھی: حکومت کو پیکیج میں اور کیا کیا کرنا چاہیے؟ ہم نے چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کی بات کی، مہاجر مزدوروں کی بات کی، کھانے کی بات کی۔ اس کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے جو آپ سوچتے ہیں حکومت کو کرنا چاہیے؟

ڈاکٹر بنرجی: آخری بات اس میں یہ ہوگی کہ ہم ان لوگوں تک پیسہ پہنچائیں جنھیں مشینری وغیرہ کی ضرورت ہے۔ ہم اصل میں لوگوں تک پیسہ نہیں پہنچا سکتے۔ جن لوگوں کے جن دھن کھاتے ہیں، انھیں تو پیسہ مل جائے گا، لیکن بہت سے لوگوں کے اکاؤنٹس نہیں ہیں۔ خاص طور سے مہاجر مزدوروں کے پاس تو ایسا نہیں ہے۔ ہمیں آبادی کے اس بڑے حصے کے بارے میں سوچنا ہوگا جن کی پہنچ اس سب تک نہیں ہے۔ ایسے میں مناسب قدم ہوگا کہ ہم ریاستی حکومتوں کو پیسہ دیں جو اپنے منصوبوں کے ذریعہ لوگوں تک پہنچے، اس میں این جی او کی مدد لی جا سکتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں کچھ پیسہ اس مد میں بھی رکھنا ہوگا کہ وہ غلط لوگوں تک پہنچ گیا یا اِدھر اُدھر ہو گیا۔ لیکن اگر پیسہ ہاتھ میں ہی رکھا رہا، یعنی ہم کچھ کرنا ہی نہیں چاہتے تو بہت بڑا مسئلہ ہو جائے گا۔


راہل گاندھی: سنٹرلائزیشن اور ڈی سنٹرلائزیشن کے درمیان توازن کا بھی ایشو ہے۔ ہر ریاست کی اپنی دقتیں اور خوبیاں ہیں۔ کیرالہ بالکل الگ طریقے سے حالات سنبھال رہا ہے، یو پی کا طریقہ بالکل مختلف ہے۔ لیکن مرکزی حکومت کو ایک خاص کردار نبھانا ہے۔ لیکن ان دونوں نظریات کو لے کر ہی مجھے کچھ کشیدگی نظر آتی ہے۔

ڈاکٹر بنرجی: آپ بالکل درست کہہ رہے ہیں کہ کشیدگی ہے اور مہاجر مزدوروں کی ہجرت کا ایشو صرف ریاستی حکومتیں نہیں سنبھال سکتیں۔ یہ تھوڑا عجیب ہے کہ اس محاذ کو اتنا دو فریقی بنا کر دیکھا جا رہا ہے۔ مجھے لگتا ہ کہ یہ ایک مسئلہ ہے۔ یہاں آپ ڈی سنٹرلائزیشن نہیں کرنا چاہتے ہیں کیونکہ آپ اطلاعات کو شیئر کرنا چاہتے ہو۔ اگر آبادی کا یہ حصہ متاثر ہے تو آپ نہیں چاہو گے کہ وہ ملک بھر میں گھومتا پھرے۔ مجھے لگتا ہے کہ لوگوں کو جس جگہ سے ٹرین میں چڑھایا جا رہا ہے، ان کا ٹیسٹ وہیں ہونا چاہیے۔ یہ ایک مرکزی سوال ہے اور اس کا جواب صرف مرکزی حکومت کے پاس ہے۔ مثال کے طور پر یو پی حکومت کو صاف بتا دو کہ آپ اپنے یہاں کے مزدوروں کو گھر نہیں لا سکتے۔ یعنی اگر مزدور ممبئی میں ہے تو یہ مہاراشٹر حکومت کی یا پھر ممبئی شہر کی میونسپلٹی کا مسئلہ ہے، اور مرکزی حکومت اس کا حل نہیں نکال سکتی۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ درست کہہ رہے ہیں۔ لیکن فی الحال اس پر آپ کی کیا رائے ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ اس مسئلہ کا کوئی حل نہیں ہے۔ لیکن طویل مدت میں دیکھیں تو ادارے مضبوط ہیں۔ لیکن فی الحال تو ایسا نہیں ہو رہا جو ہم کر سکتے ہیں۔

راہل گاندھی: مجھے لگتا ہے کہ آپ کو متبادل تلاش کرنے ہوں گے۔ جتنا ممکن ہو ڈی سنٹرلائزیشن ہو، مجھے لگتا ہے مقامی سطح پر ان سے نمٹا جا سکتا ہے، جو کہ اچھی بات ہے۔ سوچ یہ ہونی چاہیے کہ جو چیزیں ضلع سطح پر یا ریاستی سطح پر سنبھل سکتی ہیں، انھیں الگ کر دینا چاہیے۔ ہاں، بہت سی چیزیں ہیں جنھیں کوئی ضلع کلکٹر نہیں طے کر سکتا، جیسے کہ ائیر لائنس یا پھر ریلوے وغیرہ۔ تو میرا ماننا ہے کہ بڑے فیصلے قومی سطح پر ہوں، لیکن مقامی ایشوز پر فیصلے، جیسے کہ لاک ڈاؤن، اسے ریاستی حکومت کی دانشمندی پر چھوڑنا چاہیے۔ ریاستوں کے متبادل کو اہمیت ملے اور ریاست طے کریں کہ وہ کیا کر سکتے ہیں، کیا نہیں کر سکتے۔ اور جب جوکھم ریاستوں پر آئے گا تو وہ اسے بہتر طریقے سے سنبھال سکیں گی۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ موجودہ حکومت کا نظریہ الگ ہے۔ وہ چیزوں کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتی ہیں۔ وہ چیزوں کو دیکھتی ہیں اور اس کا سنٹرلائزیشن کر دیتی ہیں۔ یہ دو نظریے ہیں، مجھے نہیں لگتا کہ اس میں سے کوئی غلط یا درست ہے۔ میں تو ڈی سنٹرلائزیشن کے حق میں ہوں۔

ڈاکٹر بنرجی: میں سوچتا ہوں کہ میں کیا کرتا۔ میں جو کچھ بھی پیسہ میرے پاس ہے اس کی بنیاد پر کچھ اچھے منصوبوں کا اعلان کرتا کہ یہ پیسہ غریبوں تک پہنچے گا اور پھر اس کا اثر دیکھتے ہوئے اس میں آگے بہتری کرتا۔ مجھے لگتا ہے کہ ہر ریاست میں بہت اچھے این جی او ہیں جو اس میں مدد کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ آپ نے کہا کہ ضلع مجسٹریٹ کے پاس بھی کئی بار اچھے آئیڈیاز ہوتے ہیں۔ ہمیں ان سب کا فائدہ اٹھانا چاہیے۔

راہل گاندھی: کیا کچھ دوسرے ممالک میں کچھ ایسے تجربے آپ نے دیکھے جن سے فائدہ ہو سکتا ہو؟

ڈاکٹر بنرجی: میں آپ کو بتاتا ہوں کہ انڈونیشیا اس وقت کیا کر رہا ہے۔ انڈونیشیا لوگوں کو پیسہ دینے جا رہا ہے اور یہ سب کمیونٹی سطح پر فیصلہ لینے کے عمل کے تحت ہو رہا ہے۔ یعنی کمیونٹی طے کر رہی ہے کہ کون ضرورت مند ہے اور پھر اسے پیسہ ٹرانسفر کیا جا رہا ہے۔ ہم نے انڈونیشیا کی حکومت کے ساتھ کام کیا ہے اور دیکھا کہ سنٹرلائزڈ عمل کے مقابلے یہ کہیں زیادہ مناسب عمل ہے۔ اس سے آپ کسی خاص مفاد کو سوچے بغیر فیصلہ لیتے ہو۔ یہاں مقامی سطح پر لوگ ہی طے کر رہے ہیں کہ کیا مناسب ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ ایسا تجربہ ہے جس سے ہم سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ انھوں نے کمیونٹی کو بتایا کہ دیکھو پیسہ ہے، اور اسے ان لوگوں تک پہنچانا ہے جو ضرورت مند ہیں۔ ایمرجنسی کی حالت میں یہ اچھی پالیسی ہے کیونکہ کمیونٹی کے پاس کئی بار وہ اطلاعات اور معلومات ہوتی ہیں جو سنٹرلائزڈ نظام میں آپ کے پاس نہیں ہوتیں۔


راہل گاندھی: ہندوستان میں تو آپ کو ذات کے مسئلہ سے دو چار ہونا پڑتا ہے، کیونکہ یہاں تو اثردار ذاتیاں پیسے کو اپنے طریقے سے استعمال کر لیتی ہیں۔

ڈاکٹر بنرجی: ہو سکتا ہے، لیکن دوسری طرف آپ اسے روک بھی سکتے ہیں۔ میں ایسے میں کچھ اضافی پیسہ رکھوں گا تاکہ گاؤں کے اہل لوگوں تک یہ پہنچ جائے۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ پی ڈی ایس معاملے میں ہو۔ یعنی اسے ایک اصول بنا لیں۔ اس طرح اس سے بچا جا سکتا ہے۔

لیکن آپ لوگوں تک پیسہ پہنچانے سے زیادہ کیے جانے کی بات کر رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کے جن دھن اکاؤنٹ ہیں اور کچھ کے نہیں ہیں۔ کچھ لوگوں کا نام منریگا میں ہے، یہ ایک اور طریقہ ہے لوگوں تک پہنچنے کا۔ کچھ کے پاس اُجولا ہے، کچھ کے پاس نہیں ہے۔ ایک بار آپ فہرست دیکھیے اور آپ کو پتہ چل جائے گا کہ لاکھوں لوگ ان سے محروم ہیں، تو پھر ان تک فائدہ کیسے پہنچایا جائے۔ ہاں ایک بات صاف ہے کہ مقامی انتظامیہ کے پاس پیسہ ہونا چاہیے جو لوگوں کی شناخت کر انھیں فائدہ دے سکے۔ میں آپ سے متفق ہوں کہ بااثر ذاتیاں اس کا فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔ ہم نے انڈونیشیا میں بھی ایسا ہی اندیشہ ظاہر کیا تھا، لیکن یہ بہت زیادہ بڑا نہیں تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں کوشش کرنی چاہیے، یہ جانتے ہوئے بھی اس میں سے کچھ تو گڑبڑی ہوگی ہی۔ اگر کوشش نہیں کریں گے تو زیادہ بڑی دقت ہوگی۔

راہل گاندھی: یعنی ہمت سے آگے بڑھیں، جوکھم اٹھائیں، کیونکہ ہم بہت خراب حالات سے گزر رہے ہیں۔

ڈاکٹر بنرجی: جب آپ مصیبت میں ہوں تو ہمت سے ہی کام لینا چاہیے۔

راہل گاندھی: آپ کو کیا لگتا ہے، مانو اگر اب سے 6 ماہ میں یہ بیماری ختم ہو گئی تو غریبی کے محاذ پر کیا ہوگا؟ اس کا برا اثر ہوگا، لوگ دیوالیہ ہوں گے! ہم اس سب سے میڈیم ٹرم میں کیسے نمٹیں؟

ڈاکٹر بنرجی: دیکھیے، یہی سب جو ہم بات کر رہے ہیں، طلب میں کمی کا مسئلہ ہے، دو فکریں ہیں، پہلی کہ کیسے دیوالیہ ہونے کی زنجیر کو ٹالیں، قرض معافی ایک طریقہ ہو سکتا ہے، جیسا کہ آپ نے کہا۔ دوسرا ہے طلب میں کمی کا، اور لوگوں کے ہاتھ میں پیسہ دے کر معیشت کا پہیہ گھمایا جا سکتا ہے۔ امریکہ بڑے پیمانے پر ایسا کر رہا ہے۔ وہاں ریپبلکن حکومت جسے کچھ فائنانسر چلاتے ہیں، اگر ہم چاہیں تو ہم بھی ایسا کر سکتے ہیں۔ وہاں سماجوادی سوچ والے لبرل لوگوں کی حکومت نہیں ہے، لیکن ایسے لوگ ہیں جو مالی سیکٹر میں کام کرتے رہے ہیں۔ لیکن انھوں نے فیصلہ کیا کہ معیشت بچانے کے لیے لوگوں کے ہاتھ میں پیسہ دینا ہوگا۔ مجھے لگتا ہے ہمیں اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔


راہل گاندھی: اس سے دنیا میں اقتدار کے توازن میں بھی کچھ حد تک تبدیلی کا امکان بنتا ہے، یہ بھی صاف ہی ہے۔ آپ اس بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

ڈاکٹر بنرجی: مجھے اٹلی اور فرانس جیسے ممالک کی زیادہ فکر ہے۔ خاص طور سے اٹلی کی جہاں کے حالات بہت خراب ہیں اور اس کے لیے کچھ حد تک حکومت ذمہ دار ہے کیونکہ وہاں کی حکومت کچھ خاص لوگ نہیں چلا رہے ہیں۔ نتیجتاً صحت خدمات بالکل خراب ہوئی تھی۔ امریکہ نے ایک قومی نظریہ اختیار کیا ہے جو کہ دنیا کے لیے درست نہیں ہے۔ چین کا عروج اس کے لیے خطرہ ہے اور اگر امریکہ نے اس پر رد عمل کرنا شروع کر دیا تو اس سے عدم استحکام کا خطرہ بن جائے گا۔ یہ سب سے فکرانگیز بات ہے۔

راہل گاندھی: یعنی مضبوط لیڈر اس وائرس سے نمٹ سکتے ہیں۔ اور ایسا سمجھایا جا رہا ہے کہ صرف ایک آدمی ہی اس وائرس کو شکست دے سکتا ہے۔

ڈاکٹر بنرجی: یہ خطرناک ہوگا۔ امریکہ اور برازیل دو ایسے ملک ہیں جو بری طرح بدانتظامی کے شکار ہیں۔ یہاں دو دو مبینہ مضبوط لیڈر ہیں، اور ایسا ظاہر کرتے ہیں کہ انھیں سب کچھ پتہ ہے، لیکن وہ ہر روز جو بھی کہتے ہیں اس پر ہنسی آتی ہے۔ اگر کسی کو مضبوط لیڈر کے اصول میں بھروسہ ہے تو انھیں اس بارے میں سوچنا چاہیے۔

راہل گاندھی: بہت بہت شکریہ۔ جب بھی آپ ہندوستان میں ہوں تو برائے کرم ساتھ میں چائے پیتے ہیں۔ گھر میں سب کو سلام۔

ڈاکٹر بنرجی: آپ کو بھی، اور اپنا خیال رکھنا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 05 May 2020, 9:46 AM