تیس ہزاری واقعہ: لٹ گئی پستول، DCP کی پٹائی، آڈیو موجود، پھر کیوں نہیں ہوئی ایف آئی آر؟

تیس ہزاری کورٹ میں ہفتہ کے روز پولس اور وکیلوں کے درمیان ہوئے خونی جدوجہد میں روزانہ نئی نئی باتیں نکل کر سامنے آ رہی ہیں۔ پیر کے روز ایک سنسنی خیز آڈیو ٹیپ سامنے آیا جس میں کئی باتیں منکشف ہوئیں۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آوازبیورو

ایک آڈیو ٹیپ تیس ہزاری کورٹ واقعہ پر مشتمل سامنے آیا ہے۔ اس آڈیو ٹیپ کو لے کر دہلی پولس نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے، لیکن کہا جا رہا ہے کہ آڈیو ٹیپ میں حادثے کی آپ بیتی بیان کرتے کرتے بلک بلک کر رونے والا شمالی دہلی ضلع کی ڈی سی پی مونیکا بھاردواج کا نجی سیکورٹی گارڈ (آپریٹر) ہے۔

اس آڈیو ٹیپ کی تصدیق حالانکہ کسی بھی خبر رساں ایجنسی نے نہیں کی ہے، لیکن جس طرح سے آڈیو ٹیپ میں دو لوگوں کے درمیان بات چیت سنائی دے رہی ہے، اسے سن کر کوئی بھی سہر اٹھتا ہے۔ وائرل آڈیو ٹیپ سننے سے لگ رہا ہے کہ اس میں اپنا درد بیان کرنے والا پولس اہلکار وکیلوں سے جسم پر ملے زخموں سے کہیں زیادہ دہلی پولس کے ہی اعلیٰ افسروں سے مایوس ہے۔ اس آڈیو ٹیپ کے کچھ حصے اس طرح ہیں...


’’زیادہ چوٹ لگ گئی کیا تیرے کو بھی؟

ہاں، کندھا ٹوٹا ہوا ہے اور

امت سے بات ہوئی اس نے بتایا ہاتھ پر چوٹ آ گئی اس کے ہاتھ ٹوٹ رہے

کندھا ہے... رِسٹ ہے... اور انگوٹھا ہے۔ سر میں تین ٹانکے آئے ہیں۔‘‘

اس آڈیو میں آگے یہ بھی بات چیت سنائی دیتی ہے کہ...

’’میڈم کے بھی لگی ہے چوٹ؟

چوٹ نہیں لگی ہے لیکن دھکا مکی تو ہوئی ہے ان کے ساتھ بھی۔ بدتمیزی کی ہے یار انھوں نے، کندھا وندھا پکڑا ہے، کھینچا ہے، کالر پکڑا ہے۔

میڈم کا...؟

ہاں۔

اچھا۔


بھائی وہ تین چار سو تھے اور ہم پانچ تھے... میڈم تھیں، میں تھا...

نہیں... میڈم کے جو کندھے وندھے کھینچے وہ جنٹس وکیل تھے یا لیڈیز؟

جینٹس تھے بھائی، ایک بھی لیڈی نہیں تھی...

گالی گلوچ بھی کر رہے تھے۔

خوب گندی گندی بھائی۔ میرے پاس اس بات کی تو ویڈیو بھی پڑی ہے۔ میڈم کو کہہ رہے تھے... میڈم کو کہہ رہے تھے... (گالی...) تیرا تو آج ہم بنائیں گے خوب...۔‘‘

اس آڈیو میں میڈم سے مطلب شمالی دہلی ضلع کی ڈی سی پی مونیکا بھاردواج ہیں۔ آڈیو میں بات کرنے والے دونوں دہلی پولس کے اہلکار معلوم ہوتے ہیں۔ ان دونوں کی باتوں سے یہ راز فاش ہوتا ہے کہ آخر اتوار کو دہلی ہائی کورٹ میں سماعت کے بعد ہوئے فیصلے کو سنتے ہی شمالی دہلی ضلع کی ڈی سی پی مونیکا بھاردواج آخر میں بچے کی مانند پھپھک پھپھک کر کیوں رو پڑی تھیں۔


آڈیو میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ... ’’لیکن میں نے تو دیکھا ہے کہ کل سنڈے کے دن ہائی کورٹ کھلتا ہے اور اپنے اپنے وکیلوں کو سنتا ہے... سی پی کو پولس کو پوری گندی طرح لتاڑا ہے۔ میڈم کورٹ کے باہر آ کر روئی ہیں۔ اتنی بری طرح سے سی پی کو دھمکایا ہے...

اچھا!

میڈم روئی ہیں کورٹ سے باہر آ کر... اسی بات سے اندازہ لگا لو کہ جب وہ روئی ہیں تو کیوں روئی ہیں، کچھ تو بات ہوئی ہے...

وہ نئی نئی ڈی سی پی ہے ابھی ڈی سی پی... ڈسٹرکٹ کے اندر... اسے پتہ نہیں ہے...

میڈم کو پتہ سب ہے... ہریندر بھی گیا اسپیشل سی پی سنجے بھی گیا اور میڈم بھی گئیں... تینوں جائیں گے یہ...۔‘‘

آڈیو کے ایک حصے میں حملے میں بری طرح زخمی اس پولس اہلکار کی جسمانی سے زیادہ ذہنی تکلیف کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اس میں زخمی فرد کہتا ہوا سنائی پڑتا ہے کہ...

’’بھائی پستول بھی چھین لیا امت کا تو...

ہاں ہاں، پستول بھی گیا... جس کے ہاتھ آئی ہوگی وہ دے گا تھوڑے ہی اب۔


کیوں دے گا وہ، دیتے ہی چور نہیں بن جائے گا وہ، مقدمہ نہیں درج ہوگا اس پہ، اور دوسرا میری پستول... میری بھی پستول چھیننے کی کوشش کی تھی۔ کچھ تو میں میڈم کو بچانے کے چکر میں پٹا ہوں تو کچھ پستول بچانے کے چکر میں... جو پستول کی وہ نہیں ہوتی ہے ٹریگر کی جو وہ گول ہوتا ہے، اس میں انگلی پھنسا کر پیٹ سے چپکا لی... میں نے کہا پستول نہیں چھوٹے گی ہاتھ سے... بندہ گر گیا میری کمر پہ... جوتوں کے نشان ہیں کمر پہ... بیلٹ کے نشان ہیں، لوہے کی چین مار رکھی ہے کمر میں میرے... جو لاک اَپ میں نہیں ڈالتے ہیں لوہے کی چین، وہ میرے کمر میں مار رکھی ہے... میرے سر میں لوہے کا ڈنڈا مارا تھا، چابی ماری تھی... اور پتہ ہے بھائی جو بندہ اسکول میں میرا کالج میٹ رہا ہے نہ سب سے پہلے ڈنڈا اس... (گندی گالی) نے مارا ہے... او...۔‘‘

وائرل آڈیو ٹیپ میں ایک جگہ پر سنائی پڑتا ہے کہ ظلم کا شکار پولس اہلکار اپنی چوٹوں سے زیادہ کس قدر اپنوں کی بے رخی سے خفا ہے۔ مصیبت میں چاروں طرف سے گھری دہلی پولس بھلے ہی وائرل ٹیپ کو لے کر فی الحال کچھ نہ بولے لیکن ٹیپ اگر صحیح ہے تو پھر یہ سچ انتہائی کڑوا ہے... ٹیپ میں موجود آخر کی چند لائنیں تو یہی کچھ بیان کرتی ہیں۔ آپ بھی دیکھیے...


’’سچ بتاؤں تو میرا نہ نوکری سے بالکل من اٹھ گیا ہے... (روتے ہوئے)... کیونکہ اتنی بری طرح سے یار ایک انسان کے 10 منٹ بیہوش رہنے کے بعد بھی ان لوگوں نے بے ہوش کے اوپر بھی لات ماری... میرے منھ پہ... پڑے رہنے کے بعد بھی... اور ڈپارٹمنٹ نے... آپ لوگ تو بھائی ہو تو پوچھ رہے ہو، ڈپارٹمنٹ نے اب تک میرے آفس سے فون نہیں آیا کہ بھائی تو زندہ ہے، ٹھیک ہے، نہیں ہے... اور جس میڈم کے لیے اتنا پٹا ہوں میں، اسے تو بھنک بھی نہیں ہے تیرے آپریٹر کے چوٹ کتنی لگی ہے اور کہاں لگی ہے؟

پولس کی نوکری (گالی) ایسی ہی ہے... کیا کریں؟ امت سے بھی میں نے پوچھا کہ بھائی...

امت کے کان کا پردہ پھٹ گیا... نوں وَر- 2 کو گرا گرا کے ماری بھائی بیلٹ... بھائی گرا گرا کے...

میں نے امت سے پوچھا کہ نوں وَر-2 سے کوئی اسپتال میں ملنے کو آیا... وہ بھی یہی کہہ رہا بھائی ابھی تو کوئی بھی نہیں ملنے کو آیا... انھیں بھی بہت چوٹ آ رہی ہے...


بھائی بہت چوٹ لگی ہے امت کا کان کٹا ہے، کان کا پردہ پھٹا ہے... اس کو بہت چوٹ لگی ہے۔ وہ بتا نہیں رہا ہے۔ انٹرنل پیٹ میں میری باڈی میں اتنی گم چوٹ ہے کہ میں بستر پر پڑا رو رہا ہوں... کہیں بھی درد ہو جاتا ہے... کبھی بھی...

اور وہ کیا کہتے ہیں، پھر ان کے اوپر کوئی بھی ایکشن نہیں ہوا۔ وکیلوں پہ... مارا پیٹا کسی نے نہیں ان کو؟

نہ بھائی۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 05 Nov 2019, 12:11 PM