طلاق ثلاثہ بل پر مسلم دانشوران اور قائدین کی رائے
’’کوئی بھی شوہر اس عورت کو اپنی بیوی کی حیثیت سے نہیں رکھنا چاہے گا جس نے اس کو جیل بھجوایا ہو‘‘۔

مسلم خواتین (شادی پر حقوق کا تحفظ) بل 2017 پارلیمنٹ میں پیش کئے جانے کے بعد حکومت کی طرف سے اس کو جلد بازی میں پاس کرانے کے پیچھے حکومت کی کیا منشا ہے اس پر طرح طرح کی رائے سامنے آ رہی ہیں اور بی جے پی کو چھوڑکر سب ہی حکومت کی نیت پر شک کر رہے ہیں ۔ سبھی کو لگتا ہے کہ اس کےپیچھے انتخابی سیاست کارفرماں ہے ۔
اس بل کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ کہیں نہ کہیں یہ جنسی تعلقات کے لئے مجبور کرتا ہے اور اگر ایسا کرنے کے لئے مجبور کیا جا رہا ہے تو وہ کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے۔

حیدر آباد کی لاء یونیورسٹی کے وائس چانسلر فوزان مصطفی کا کہنا ہے کہ ’’کسی بھی شخص کو جنسی تعلقات بنائے رکھنے کے لئے مجبور کرنے کا مطلب ہے اس شخص کی انفرادی پسند اور آزادی پر سنگین حملہ ۔ایک طرف تو ’لو جہاد‘ ہے جس کے ذریعہ شادی کرنے کی آزادی کے حق کو چھین نے کی کوشش ہو رہی ہے اور دوسری طرف مسلم خواتین کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ اسی شخص کے ساتھ رہے جس نے اس کے ساتھ بد تمیزی کی ہے اور ایک ہی وقت میں تین طلاق دےکر اسے ذلیل کیا ہے‘‘۔ایک اور سوال یہ ہے کہ کیا ہم حالات بہتر کرنا چاہ رہے ہیں یا خراب، ہم مسلم خواتین کو عزت کی زندگی دینا چاہ رہے ہیں یا اس کی زندگی کے تمام راستے بند کرنے جا رہے ہیں ۔ اس پر فوزان مصطفی کا کہنا ہے کہ ’’کوئی بھی شوہر اس عورت کو اپنی بیوی کی حیثیت سے نہیں رکھنا چاہے گا جس نے اس کو جیل بھجوایا ہو‘‘۔

سارے معاملے پر سخت رد عمل کااظہار کرتے ہوئے پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ ’’ سرکار کو گجرات فسادات کے دوران ہوئی بیواؤں کا درد بھی سمجھنا چاہئے۔ بل کو اس شکل میں پاس کیا جانا ٹھیک نہیں ہے ۔ جو پارٹی 33 فیصد خواتین کے لئے ریزرویشن کا وعدہ کرکے اقتدار میں آئی تھی وہ اب تک اس بل کو پارلیمنٹ میں پیش اور پاس نہیں کر سکی، لیکن جس عجلت میں مسلم خواتین کے مفادات کی تحفظ کی دہائی دیتے ہوئے اس کو پارلیمنٹ سے پاس کرانے کی کوشش ہورہی ہے وہ سمجھ سے باہر ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں وزیراعظم کئی بار کہہ چکے ہیں کہ سب کی بات سنی جانی چاہئے اس لئے سرکار کو وزیراعظم کی اس بات پر عمل کرنا چاہئے ۔
پروفیسر اخترالواسع نے کہا کہ ملک میں ماب لنچنگ اور اس طرح کے بڑھتے واقعات کے درمیان جس طرح سے حکومت مسلم خواتین کی حقوق کی دہائی دیتے ہوئے پارلیمنٹ میں کہہ رہی ہے کہ ملک میں اگر 18 کروڑ مسلمان مرد ہیں تو9 کروڑ مسلم عورتیں بھی ہیں اس لئے ان کے مفادات کی حفاظت ضروری ہے ،تو میرا سرکار سے سوال ہے کہ ماب لنچنگ میں جو لوگ مارے جارہے ہیں اس سے بھی کسی ماں کا کلیجہ ہی چھلنی ہوتا ہوگا اور کوئی عورت ہی بیوہ ہوتی ہوگی ۔
انہوں نے کہا کہ سرکار کو اس پر غور کرنا چاہئے، اس لئے حکومت کا عاجلانہ قدم درست نہیں معلوم ہوتاہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت اس وقت تک اسے قانون کی شکل نہ دے جب تک کہ شریعت کے ماہرین اور دین کے جانکار اس پر اپنی مہر نہیں لگادیتے۔ انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ جلدی میں بل منظور نہ کرے، اور اس بل کو پارلیمنٹری کمیٹی کو بھیج دینا چاہئے تاکہ اس بل کو بہتر بنایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ عجلت کی روایت شروع کرنا ٹھیک نہیں ہے، بلکہ اپوزیشن کی طرف سے اٹھائے گئے سوالات پر سرکار کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے۔

کانگریس کے سینئر رہنما اور سابق وزیر سلمان خورشید کا اس معاملے پر کہنا ہے کہ’’ہمیں اس کی حمایت نہیں کر نی چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں یہ واضح نہیں کیا گیا ہے کہ 3 طلاق کو جرم ٹھہرائے جانے سے خواتین کو کیسے فائدہ ملے گا۔ اگر کوئی مرد جیل چلا جائے گا تو پھر خاتون کی کفالت کون کرے گا‘۔

شاہی مسجد فتح پوری کے امام ڈاکٹر مفتی مکرم احمد کا کہنا ہے کہ ’’ حکومت نے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے اس بل کو جلد بازی میں پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے۔ اگر کوئی شخص دے گا تو طلاق ہو جائے گی ا ور 3 طلاق دینے کے بعد بیوی شوہر کے نکا ح سے باہر ہو جاتی ہے۔ شریعت میں کوئی مداخلت قابل قبول نہیں ہے اور اب رہا سوال سزا دینے کا تو اس سے عورت کی مشکلیں اور خاندانی کفالت کی مشکلیں بڑھیں گی اور ان سد باب کو بھی حکومت کو کرنا ہوگا‘‘۔

مجلس اتحادالمسلمین کے رہنما اور رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے کہا کہ 3 طلاق سے متعلق بل آئین کے خلاف ہے۔ یہ خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ انہوں نے حکومت کی منشا پر سوال کھڑے کرتے ہوئے کہا کہ شادی ایک سول کنٹریکٹ ہوتی ہے، اس بل سے مردوں کو ہی طاقت ملے گی۔ اس بل کے ذریعہ مسلم مردوں کو شیطان کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر قانون ایک وکیل ہو سکتے ہیں، لیکن یہ پیتھیٹک لاء ڈرافٹ مین ہیں۔ سول لاء اور کریمنل لاء کو ایک ساتھ ملادیا ہے۔ انہوں نے ایوان کو گمراہ کیا۔ کسی بھی مسلم ملک میں پینل کوڈ نہیں ہے۔ اسلام میں شادی سول کنٹریکٹ ہے۔ آپ مسلم سماج کو ڈیمولرائز کر رہے ہیں۔ جہیز کے خلاف قانون ہے، لیکن 80 فیصد جہیز کے کیس میں ہندو شامل ہیں۔ کیا آپ کو اس کی فکر ہے۔ آپ مسلم خواتین کو انصاف نہیں دلارہے ہیں، بلکہ آپ مسلم مردوں کے ہاتھوں میں ہینڈل دے رہے ہیں۔ آپ چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ مسلمان جیل میں جائیں۔ اگر آپ کا ارادہ صحیح ہے تو آپ ایک ہزار کروڑ روپے کا کورپس لائیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نے بچپن میں ایک کہانی سنی تھی کہ ایک سڑک کے کنارے پانی بہہ رہاتھا، جس میں مچھلیاں تھیں، وہ انجوائے کر رہی تھیں، تبھی وہاں ایک بندر آگیا اور بندر نے مچھلیوں کو پانی سے نکال کر پتھر پر رکھنا شروع کردیا تو ایک آدمی نے بندر سے پوچھا کہ تم کیا کر رہے ہو، تو اس نے کہا کہ میں مچھلیاں بچا رہا ہوں۔ آپ بھی وہی کر رہے ہیں۔ آپ بچا نہیں رہے ہیں بلکہ مار رہے ہیں۔

مرکزی وزیر مملکت ایم جے اکبر نے اس بل کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اس بل سے کچھ بھی خطرے میں نہیں ہے، اگر کچھ خطرے میں ہے تو وہ مردوں کی زبردستی خطرے میں ہے۔ ہندوستان کو تقسیم کر نے کے لئے آزادی سے پہلے اسلام میں نعرے کا استعمال کیا گیا اور اب سماج کو توڑنے کے لئے اس کا استعمال کیا جارہا ہے۔ زہر پھیلایا جا رہا ہے‘‘۔

آل انڈیا مجلس مشاورت کے صدر نوید حامد نے کہا کہ ’’دراصل اس بل کو لانے کا مقصد پچھلے دروازے سے یونیفارم سول کوڈ لانے کی کوشش ہے۔ بل مسلم خواتین کے خلاف ہے اور بظاہر سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بھی خلاف ہے، جو اس نے طلاق ثلاثہ پر دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے تو صرف طلاق ثلاثہ پر ہی پابندی لگائی تھی، لیکن یہ بل تو کسی بھی طرح سے طلاق دینے پر سوالیہ نشان لگا رہا ہے۔ در حقیقت یہ مسلمانوں کے خلاف ملک میں ماحول بنانے اور ان کو بدنام کرنے کا ایک ہتھیار ثابت ہوگا‘‘۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ترجمان مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی کا اس بل کے تعلق سے ماننا ہے کہ ’’حکومت کا مقصد مسلم مردوں سے جیل کو بھر دینا ہے، تاکہ مسلم معاشرہ انتشار کا شکار ہو جائے۔ اتنے حساس مسئلے پر جلد بازی میں بل پیش کیا گیا اور اسی طرح اسے آناً فاناً میں پاس کرایا گیا۔ اس سے حکومت کے عزم کا پتہ چلتا ہے کہ وہ مسلم معاشرہ کے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہے۔ اگر حکومت کی نیت صاف ہوتی تو وہ مسلم علماء اور مسلم ماہر قانون سے صلاح و مشورہ ضرور کرتی۔

سماجوادی پارٹی کے سینئر رہنما اعظم خاں نے کہا ’’پرسنل لاء بورڈ کے طویل مدتی دور میں تمام معاملات طے ہو جانے چاہیں تھے۔ طلاق ثلاثہ کوئی بڑا معاملہ نہیں تھا لیکن آج تک نکاح نامہ بھی تیار نہیں ہو سکا۔ پرسنل لاء بورڈ خود سے معاملہ کو حل کرتا تو اور وہی کہتا جو قرآن میں ناذل ہوا ہے ۔ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو قرآن کریم میں موجود نہ ہو۔ حکومت جو بھی کر رہی ہے وہ تو صرف اور صرف انتخابی ضرورتوں کو ذہن میں رکھ کر رہی ہے ۔ ‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 29 Dec 2017, 1:05 PM