نئے سال میں دبے پاؤں آرہا ہے سوائن فلو

دہلی میں مجموعی طور پر جنوری ماہ میں تقریباً 10 لوگوں کی موت ہوچکی ہے، جبکہ پچھلے سال صرف دولوگوں کی ہی موت ہوئی تھی۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

نواب علی اختر

نئی دہلی: گزشتہ چند برسوں سے سوائن فلو کی دستک محکمہ صحت کو چوکنا کر دیتی ہے۔ گزشتہ دو برسوں میں تین ہزار سے زیادہ لوگوں کی جان لینے والی یہ خطرناک بیماری اس سال بھی دبے پاو ں چلی آرہی ہے۔ جنوری ماہ 2019 کے پہلے تین ہفتے میں ملک بھر میں اس کے 2777 معاملے سامنے آئے ہیں اور کل 85 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ ان میں اکیلے راجستھان میں مریضوں کی تعداد 1233 ہے اور مرنے والوں کے اعداد و شمار 49 تک پہنچ چکی ہے۔ گجرات کے ودورا میں پانچ اور اتراکھنڈ میں 13 لوگوں کی موت کی تصدیق ہوئی ہے۔

سوائن فلو کا قہر راجدھانی دہلی سمیت ملک کے دیگر تمام حصوں میں بڑھ رہا ہے۔ دہلی میں 20 جنوری تک اس کے کل 267 معاملوں کی تصدیق ہوئی ہے۔ یکم جنوری سے اب تک آر ایم ایل اسپتال میں 6 لوگوں کی موت کے ساتھ مجموعی طور پر دہلی میں جنوری ماہ میں تقریباً 10 لوگوں کی موت ہوچکی ہے۔ جبکہ پچھلے سال صرف دو لوگوں کی موت ہی ہوئی تھی۔

وزارت صحت اور خاندانی بہبود کے خطرناک بیماری نگرانی پروگرام (آئی ڈی ایس پی) کے اعداد و شمار کے مطابق راجستھان میں اس کے مریضوں اور مرنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، اس کے بعد پنجاب کا نمبر آتا ہے جہاں 90 لوگ اس کی زد میں آئے اور 9 کی موت ہو چکی ہے۔ رپورٹ کے مطابق دہلی، گجرات، ہریانہ، اترپردیش، آندھرا پردیش، تمل ناڈو اور تلنگانہ میں بھی بیماری کی آمد درج کی گئی ہے۔

خنزیر اور سانس کی نالی سے نکلے وائرس کی وجہ ہونے والی یہ بیماری انتہائی متعدی ہے۔ حالانکہ عام حالات میں یہ بیماری خنزیر سے انسانوں میں نہیں پھیلتی لیکن خنزیر پالنے والے اور ان کے ساتھ کام کرنے والے انسانوں میں اس کی منتقلی کا خدشہ رہتا ہے۔ اس کے علاوہ گوشت خوری کرنے والے لوگ اگر متعدی گوشت کو اچھی طرح پکائے بغیر اس کا استعمال کر لیں تو ان میں بیماری ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور دوسروں میں بھی اس کے انفکشن کا خطرہ رہتا ہے۔

شری بالاجی ایکشن میڈیکل انسٹی ٹیوٹ کے ریسپریٹری میڈیسن میں سینئر کنسلٹینٹ ڈاکٹر گیان دیپ منگل کا کہنا ہے کہ اس مہلک بیماری پر کنٹرول کرنا بہت ضروری ہے، دوسری صورت میں یہ ایک قومی بوجھ بن سکتی ہے۔ وہ بیماری کے بارے میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بیدار کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی زد میں آنے والوں کا مناسب علاج اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو اس کے انفیکشن میں آنے سے بچنے کے لئے کافی اقدامات کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ چھوٹے بچوں، حاملہ خواتین، ذیابطیس اور دل کی بیماری کے مریضوں کے اس کے زد میں آنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے کیونکہ ان کا مدافعتی نظام عام لوگوں کے مقابلے میں کمزور ہوتا ہے۔ وہ مشورہ دیتے ہیں کہ بیماری کی شناخت کرکے فوری اس کا علاج شروع کرنا چاہیے بصورت دیگر مریض کی موت بھی ہو سکتی ہے۔

نارائن سپرا سپیشلٹی ہاسپٹل گروگرام کے سینئر ماہر خوراک پرمیت کور کے مطابق مناسب خوراک جسم کے مدافعتی نظام کو مضبوط بنائے رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور سوائن فلو ہونے کی صورت میں بھی صفائی اور علاج کے ساتھ ساتھ غذا پر بھی خصوصی توجہ دی جانی چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ ایچ 1 این 1 وائرس کی زد میں آنے والے مریضوں کے علاج کے لئے تمام ضروری احتیاط برتی جاتی ہیں۔ بیماری سے متاثر لوگوں کے علاج کے لئے تقریباً ہراسپتال میں ایک الگ سوائن فلو وارڈ کا بندوبست کیا جاتا ہے تاکہ اسپتال کے دیگر مریضوں اور عملے کو اس بیماری کے انفیکشن سے بچایا جا سکے۔

دھرم شلا نارائنا سپراسپیشلٹی اسپتال کے ڈاکٹرگورو جین بتاتے ہیں کہ سوائن فلو کی علامات محسوس ہونے پر فوری ٹیسٹ کرانا چاہیے اور اگر ٹیسٹ رپورٹ پازیٹیو آئے تو دیر کیے بغیر علاج کیا جاتا ہے۔ ایسے میں اینٹی وائرل دوا دینے سے مریض کو فوری راحت ملتی ہے اور کچھ وقت کے لئے بیماری کی شدت کم ہو جاتی ہے۔

آئی ڈی ایس پی کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سال 14,992 لوگ سوائن فلو کے وائرس کے شکار ہوئے اور ان میں سے 1,103 کی موت ہوگئی۔ اس سے پچھلے برس اس کا قہر زیادہ رہا اور کل 38,811 مریضوں میں 2,270 کو بچایا نہیں جا سکا۔ اس سال بھی یہ بیماری دبے پاوں چلی آ رہی ہے اور صحت ایجنسیاں اس پر کنٹرول کے تمام اقدامات کر رہی ہیں۔

مہلک بیماری پھیلنے کے اسباب

خنزیراور سانس کی نالی سے نکلنے والے وائرس کی وجہ سے یہ بیماری انتہائی متعدی ہے۔ حالانکہ عام حالات میں یہ بیماری خنزیر سے انسانوں میں نہیں پھیلتی لیکن خنزیر پالنے والے اور ان کے ساتھ کام کرنے والے انسانوں میں اس کی منتقلی کا خدشہ رہتا ہے۔ اس کے علاوہ گوشت خوری کرنے والے لوگ اگر متعدی گوشت کو اچھی طرح پکائے بغیر اس کا استعمال کرلیں تو ان میں بیماری ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور دوسروں میں بھی اس کے انفیکشن کا خطرہ رہتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔