جواہر لال نہرو کی جمہوری سوچ اور ان کے مخالفین

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

ڈھوڑپکر

ان دنوں ہندتوا بریگیڈ کے نشانے پر ان کے موجودہ مخالفین سے زیادہ جواہر لال نہرو ہیں۔ یہ عجیب و غریب بات ہے کہ جس شخص کو گزرے ہوئے تقریباً 54 سال ہو گئے وہ موجودہ حکمرانوں کے لیے سب سے بڑا دشمن بنا ہوا ہے۔ ظاہر ہے نہرو سیاست میں ان اقدار کے نمائندہ ہیں جن کی ہندوتوا بریگیڈ مخالف ہیں۔ مثلاً جمہوریت کے عقائد اور اداروں کا وقار، مذہبی ہم آہنگی اور سماجی ترقی۔ لیکن اس کے علاوہ بڑی وجہ یہ ہے کہ نہرو اپنے اطوار سے ایک علیحدہ ثقافت کی نمائندگی کرتے تھے جس سے ایک ’ثقافتی تنظیم‘ سے آئے لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے۔ نہرو کس ثقافت کی نمائندگی کرتے تھے یہ کچھ مثالوں سے صاف ہو جائے گا۔

رام منوہر لوہیا کی پیدائش کی صد سالہ تقریب کے موقع پر شائع ایک یادگاری شمارہ میں دلچسپ قصہ ہے۔ لوہیا ایک بار کافی بیمار تھے اور یہ گفتگو چل رہی تھی کہ انھیں دیکھ بھال اور علاج کے لیے کہاں جانا چاہیے۔ کسی نے کہا کہ وہ کولکاتا چلے جائیں، کسی نے کہا کہ وہ حیدر آباد بدری وشال پیتی کے یہاں چلے جائیں۔ لوہیا نے کہا- جانتے ہو میری سب سے اچھی دیکھ بھال کہاں ہو سکتی ہے۔ آج بھی میری دیکھ بھال الٰہ آباد میں آنند بھون میں جیسی ہوگی ویسی کہیں نہیں ہوگی۔ یہ لوہیا کے سخت نہرو مخالف ہو جانے کے بہت بعد کی بات ہے۔

ایک قصہ راج تھاپر کی کتاب ’آل دوز ڈیز‘ میں آتا ہے۔ رومیش تھاپر ممبئی میں ڈاکومینٹری فلموں میں وائس اوور کر کے زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس وقت بمبئی ریاست کے وزیر اعلیٰ مورار جی دیسائی نے کمیونسٹ ہونے کے الزام میں انھیں کام دیے جانے پر پابندی لگوا دی۔ لوگوں نے تھاپر کو مشورہ دیا کہ وہ نہرو سے شکایت کریں۔ تب کمیونسٹ پارٹی، کانگریس مخالف اور نہرو مخالف تھی۔ اس لیے تھاپر نے ان کا مشورہ نہیں مانا۔ تب دوستوں نے کہا کہ تم نہرو نام کے شخص یا کانگریس کے لیڈر سے نہیں، ہندوستان کے وزیر اعظم سے شکایت کرو گے کہ ان کی حکومت تمھارے ساتھ ناانصافی کر رہی ہے۔ تھاپر نے ایک خط لکھا اور اسے وزیر اعظم کی رہائش گاہ کے باہر ڈاک کے ڈبے میں ڈال دیا۔ اگلے ہی دن رومیش تھاپر کو وزیر اعظم کے سکریٹری متھائی کا فون آیا۔ انھوں نے کہا کہ وزیر اعظم نے آپ کا خط پڑھا۔ کل اس سلسلے میں آپ کو اطلاعات و نشریات کے وزیر ڈاکٹر کسکر کا فون آئے گا۔ اگر ڈاکٹر کیسکر کا فون نہ آئے تو آپ پھر ہم سے رابطہ کریں۔ اگلے دن تھاپر کو ڈاکٹر کیسکر کا فون آیا۔ انھوں نے تھاپر کو ملنے بلایا۔ تھاپر ان سے ملے اور انھیں پھر اپنا کام مل گیا۔

ایک واقعہ سابق وزیر اعظم چندر شیکھر کا سنایا ہوا ہے۔ چندر شیکھر پہلی بار جب پارلیمنٹ پہنچے تو ایک دن انھوں نے پارلیمنٹ میں نہرو کی سخت تنقید کی۔ شام کو نہرو نے پرجا سوشلسٹ پارٹی (پی ایس پی) کے لیڈر ناتھ پئے سے پوچھا ’’یہ نوجوان اتنا ناراض کیوں ہے؟‘‘ ناتھ پئے نے چندرشیکھر سے بات کی اور جواب نہرو کو سنایا۔ نہرو نے اگلے دن صبح پارلیمنٹ میں چندر شیکھر کے اٹھائے گئے ایشوز پر تفصیلی بیان پیش کیا۔

ایک واقعہ دہلی کے وزیر اعلیٰ مدن لال کھرانہ کا بتایا ہوا ہے۔ کھرانہ جب الٰہ آباد یونیورسٹی میں پڑھ رہے تھے تب یونیورسٹی کے طلبا کے ایک نمائندہ وفد کے ساتھ نہرو سے ملنے آئے۔ مل کر جب نمائندہ وفد جانے لگا تو نہرو طلبا کو چھوڑنے دروازے تک آئے۔ طلبا نے احتراماً کہا کہ اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، تب نہرو نے کہا کہ نوجوان، یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ یاد رہے کہ یہ ہمارے ملک کی تہذیب ہے۔

یہ واقعات جس ثقافت اور مہذب قدروں کی مثال پیش کرتے ہیں، اس سے ثقافت کے نام نہاد پیروکاروں کو بار بار شرمندہ ہونا پڑتا ہے، انھیں اس سے بار بار آئینہ دکھائی دیتا ہے۔ نہرو کا یہ رویہ جمہوریت کے اعلیٰ اقدار کے ساتھ ساتھ ہندوستانی ثقافت کی گہرائی کو بھی ظاہر کرتا ہے کیونکہ ہندوستانی سماج میں جو رواداری اور نرمی صدیوں سے دیکھنے کو مل رہی ہے، نہرو بھی اس کے نمائندہ نظر آتے ہیں۔ اس سے ہندوتوا بریگیڈ کو احساس ہو جاتا ہے کہ ان کے عادات و اطوار کے غیر اور نقلی ہیں۔ اگر نہروغیر جمہوری، جارح اور غیر مہذب ہوتے تو ان کے مخالفین کو آج تک ان کی مخالفت میں محاذ آرائی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ لیکن اپنے جمہوری اور مہذب رویہ سے نہرو آج بھی تنگ اور غیر روادار ذہنیت کے خلاف ایک مضبوط دیوار بنے ہوئے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 14 Nov 2017, 9:11 AM