اس تصویر نے ہمارا سر شرم سے جھکا دیا... سہیل انجم

دراصل اب یہ ایک نیا ہندوستان ہے۔ بقول وزیر اعظم نریندر مودی یہ ایک نیا بھارت ہے۔ اب اس نئے بھارت میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ پولیس کسی کو بھی پکڑ کر عریاں کر سکتی ہے۔

تصویر بشکریہ ٹوئٹر
تصویر بشکریہ ٹوئٹر
user

سہیل انجم

قارئین کرام کو چند روز قبل وائرل ہونے والی وہ تصویر تو یاد ہوگی جس میں آٹھ افراد نیم عریاں حالت میں ایک قطار میں کھڑے ہیں۔ وہ صرف زیر جامہ یعنی انڈرویئر میں ملبوس ہیں۔ وہ دیوار سے لگے ہوئے ہیں اور ان کے سامنے ایک پولیس والا کچھ قانونی کارروائی کر رہا ہے۔ یہ مدھیہ پردیش کے ضلع سدھی کے ایک کوتوالی کی تصویر ہے۔ تصویر میں جو لوگ نظر آرہے ہیں ان میں سے ایک صحافی ہے باقی ایک ڈرامہ کمپنی کے فنکار ہیں۔ بظاہر ان کے چہرے کسی بھی قسم کے جذبات سے عاری نظر آرہے ہیں۔ لیکن وہ سب اپنے دونوں ہاتھوں کو سامنے نیچے کرکے ایک دوسرے پر رکھے ہوئے ہیں۔ یعنی وہ اس احساس سے اندر ہی اندر شرمندہ ہیں کہ انھیں پولیس والوں نے عریاں کر دیا ہے اور اسی لیے وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے ستر پوشی کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔

اس تصویر کو دیکھ کر ایسا لگا کہ یہ صرف آٹھ لوگ نہیں ہیں بلکہ یہ پورا معاشرہ ہے اور پورا ملک ہے جسے بے لباس کر دیا گیا ہے۔ اس تصویر کو دیکھ کر ہر اس شخص کا سر شرم سے جھک گیا ہوگا جس کے اندر ذرا بھی غیرت ہوگی۔ ذرا سوچیے کہ اگر آپ کو ایسی کسی صورت میں مبتلا ہونا پڑے تو کیا آپ کے دل و ذہن میں کوئی خیال نہیں آئے گا۔ کوئی احساس آپ کو کچوکے نہیں لگائے گا۔ ضرور لگائے گا۔ اور تصویر میں نظر آنے والے بھی کسی نہ کسی احساس میں گرفتار ہوں گے۔ وہ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ آخر انھوں نے ایسا کون سا بڑا جرم کر دیا کہ ان کو بے لباس کر دیا گیا۔ وہ سوچ رہے ہوں گے کہ ان کے اہل خانہ کے سامنے یہ تصویر گزرے گی تو ان پر کیا بیتے گی۔ وہ اگر شادی شدہ ہوں گے تو یہ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ ان کے بچے انھیں کیا کہیں گے اور کیا ان کی مانند وہ بھی احساس جرم میں گرفتار نہیں ہو جائیں گے۔ انھوں نے ضرور ایسا سوچا ہوگا اور بعد میں اس کا ثبوت بھی ملا۔


گرفتار شدگان میں سے جو ایک صحافی ہے اور جس کا نام کنشک تیواری ہے اس نے بعد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کی معصوم بیٹی اس سے پوچھ رہی تھی کہ پاپا آپ نے اپنے کپڑے کیوں اتار دیئے تھے۔ اب وہ بیچارہ اپنی بیٹی کو کیا جواب دیتا۔ یہ دو مارچ کا واقعہ ہے۔ پہلے ان لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔ پھر ان کے کپڑے اتروائے گئے۔ پھر ان کی تصویر اتاری گئی اور پھر اسے وائرل کیا گیا اور پھر ان کے بیان لے کر انھیں اسی حالت میں لاک اپ میں بند کر دیا گیا۔ جب پولیس والوں سے ان کو بے لباس کرنے کے بارے میں پوچھا گیا تو پولیس کے ایک افسر نے یہ لولا لنگڑا جواب یا کہ انٹروگیشن یعنی پوچھ گچھ کے دوران ملزموں کے کپڑے اتروا دیئے جاتے ہیں۔

جب پوچھا گیا کہ ان کو اسی حالت میں پندرہ گھنٹے تک کیوں لاک اپ میں رکھا گیا تو پولیس افسر نے جواب دیا کہ انھیں اس لیے کپڑے نہیں دیئے گئے کہ کہیں وہ لوگ انہی کپڑوں سے خود کشی نہ کر لیں۔ واہ رے شیو راج سنگھ چوہان کی پولیس؟ کیا جواب لے کر آئی ہے۔ ہاں پولیس تھانے میں ایسا ہو بھی سکتا ہے۔ قارئین کو کاسگنج اترپردیش کے اس مسلم نوجوان کا واقعہ تو یاد ہی ہوگا جب پولیس کے لاک اپ میں اسے بند کیا گیا اور وہاں اس کی موت ہو گئی تو پولیس والوں نے بتایا تھا کہ اس نے لاک اپ کے نلکے میں ایک رسی باندھ کر اس سے خودکشی کر لی ہے۔ حالانکہ وہ نلکا فرش سے صرف دو ڈھائی فٹ ہی اونچا تھا۔ جب اس طرح ملزمین خود کشی کر سکتے ہیں تو پھر اپنے کپڑوں سے کیوں نہیں کر سکتے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر کہیں بھی ملزموں کو کپڑے پہننے کو نہیں دینے چاہئیں۔ خواہ وہ پولیس کا لاک اپ ہو یا جیل کا سیل۔


اب ذرا یہ بھی جان لیجیے کہ ان لوگوں کا جرم کیا تھا۔ ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس سے تو یہی لگتا ہے کہ انھوں نے کوئی بہت بڑا جرم کر دیا ہوگا۔ لیکن ان کا جرم صرف اتنا تھا کہ وہ پولیس کی جانب سے ایک فنکار کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔ اور یو ٹیوب صحافی کا جرم یہ تھا کہ وہ بی جے پی کے ایک ایم ایل اے کے خلاف ہونے والے احتجاج کی رپورٹنگ کرنے گیا تھا۔ فنکار کو اس لیے گرفتار کر لیا گیا تھا کہ بقول پولیس، اس نے ایک فرضی فیس بک آئی ڈی بنا کر مذکورہ ایم ایل اے اور اس کے بیٹے کے خلاف کمنٹس کیے تھے۔ جب چھان بین میں انکشاف ہوا کہ فلاں شخص نے فرضی آئی ڈی بنائی ہے تو اسے گرفتار کر لیا گیا۔ لیکن صحافی کا کیا جرم تھا۔ کیا کسی واقعہ کی رپورٹنگ کرنا جرم ہے۔ ہاں شاید جرم ہے اگر اس واقعہ میں بی جے پی کا کوئی نیتا ملوث ہو۔

پولیس کی اس کارروائی کے بعد تادم تحریر جو اطلاع ہے وہ یہ ہے کہ دو پولیس والوں کو سزا دی گئی ہے اور سزا کیا دی گئی ہے کہ انھیں لائن حاضر کر دیا گیا ہے۔ یعنی اب وہ دفتری کام انجام دیں گے۔ کیا یہ سزا کافی ہے۔ کیونکہ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ پولیس کو یہ قانونی اختیار نہیں ہے کہ وہ کسی ملزم کے کپڑے اتروائے۔ پولیس کو یہ بھی اختیار نہیں ہے کہ وہ متعلقہ حکام کی اجازت کے بغیر کسی ملزم کو ہتھکڑی لگائے۔ لیکن یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ خود سپریم کورٹ نے ہتھکڑی میں عام ملزموں کو عدالت میں پیش کرنے سے روکا ہے۔ لیکن دہلی فسادات میں ملزم بنائے گئے عمر خالد کو ہتھکڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا جاتا ہے اور دوسروں کو بھی۔


دراصل اب یہ ایک نیا ہندوستان ہے۔ بقول وزیر اعظم نریندر مودی یہ ایک نیا بھارت ہے۔ اب اس نئے بھارت میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ پولیس کسی کو بھی پکڑ کر عریاں کر سکتی ہے۔ کوئی بھی شخص بھگوا لباس پہن کر اور کسی بھی مسجد کے سامنے لاوڈ اسپیکر سے دوسرے فرقے کی خواتین کو ریپ کرنے کی دھمکی دے سکتا ہے۔ کوئی بھی جلوس کسی بھی مسجد کے باہر ہنگامہ کر سکتا ہے۔ مسجد پر چڑھ کر بھگوا جھنڈا لہرا سکتا ہے۔ بشرطیکہ جلوس کے شرکا بھگوا لباس پہنے ہوں یا بھگوا رومال گلے میں ڈالے ہوئے ہوں۔

اب تو کوئی بھی سادھو کسی بھی جلسے میں ہندووں کو ہتھیار اٹھا لینے اور انھیں ایک فرقے کے قتل عام کے لیے اکسا سکتا ہے۔ اب ایسا بہت کچھ ہو سکتا ہے جیسا پہلے کبھی نہیں ہوتا تھا۔ اب یہ سب کچھ جرم نہیں رہ گیا۔ اپرادھ نہیں رہ گیا۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہ نیا بھارت ہے۔ ہاں اگر اقلیتی طبقے کے کسی فرد کے خلاف کوئی جھوٹی رپورٹ ہی لکھوا دے تو پولیس فوراً حرکت میں آجائے گی اور اسے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دے گی۔ کیوں؟ اس لیے کہ یہ نیا بھارت ہے اور اس نئے بھارت میں ہندووں کی حکومت ہے۔ ایک ایسی حکومت جس میں قانون ’’منہ دیکھی‘‘ کرتا ہے اور عدالتیں خاموش تماشائی بنی رہتی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔