یہ جاٹ بمقابلہ حکومت نہیں بلکہ تمام کسانوں کی لڑائی ہے: راکیش ٹکیت

غازی پور بارڈر پر مرکزی اور اتر پردیش حکومت کے جارحانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے پولیس کی بھاری نفری تعینات کئے جانے کے بعد لگ رہا تھا کہ اب یہ تحریک زیادہ دن نہیں چل سکے گی لیکن ایسا نہیں ہوا

تصویر قومی آواز / وپن
تصویر قومی آواز / وپن
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: زرعی قوانین کے خلاف کسانوں کی جاریہ تحریک کو جاٹ بمقابلہ حکومت قرار دئے جانے کو بھارتیہ کسان یونین (بی کے یو) کے ترجمان راکیش ٹکیت نے یکسر مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ یہ کسی ایک طبقہ کی نہیں بلکہ تمام کسانوں کی لڑائی ہے۔

خیال رہے کہ گذشتہ جمعرات کی شام غازی پور بارڈر پر یوپی حکومت کی طرف سے بڑی تعداد میں پولیس فورس تعینات کر دی گئی تھی جس کے بعد یہ لگنے لگا تھا کہ اب یہ تحریک ختم ہو جائے گی لیکن راکیش ٹکیت کی ایک پرجوش اور جذباتی ویڈیو نے مغربی اتر پردیش کے کسانوں میں غم و غصہ بھر دیا ہے اور وہ راتوں رات اپنا گھر بار چھوڑ کر غازی پور بارڈر پہنچنے لگے۔ اس اچانک تبدیلی کے بعد کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اب یہ لڑائی ایک طبقہ اور ریاستی حکومت کے مابین رہ گئی ہے، تاہم راکیش ٹکیت نے اس کی تردید کی ہے۔


کسان لیڈر راکیش ٹکیت سے جب پوچھا گیا کہ آیا یہ لڑائی اب جاٹ بمقابلہ ریاستی حکومت بن گئی ہے؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا، "نہیں ایسا نہیں ہے۔ اس تحریک میں ہر طبقہ کا کسان شامل ہے۔ میں نے اس تحریک میں پہلی بار لفظِ جاٹ سنا ہے، مجھے اس پر اعتراض ہے، یہ لڑائی کسان بمقابلہ حکومت ہی رہے گی۔"

اس کے بعد ٹکیت نے اپنے آس پاس کھڑے لوگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، کیا یہ جاٹ ہیں؟ اسی دوران ٹکیت کے پاس بیٹھے ایک کسان نے کہا، "میں ایک پنڈت ہوں اور اس تحریک میں ہر طبقے کے لوگ موجود ہیں۔"

دریں اثنا، مظفر نگر میں منعقدہ مہاپنچایت کی تصاویر بھی راکیش ٹکیت اور کسان تحریک کی بڑھتی ہوئی حمایت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ اب تک کسانوں کی تحریک کا مرکز سنگھو اور ٹکری بارڈر سمجھا جاتا تھا لیکن اب غازی پور بارڈر کسانوں کی تحریک کا ایک نیا مرکز بن کر ابھرا ہے۔ سرحد پر موجودہ صورتحال کے مطابق مغربی اتر پردیش کے ہزاروں کسان یہاں پہنچ چکے ہیں۔ اب کسان ٹریکٹر کے بجائے کاروں اور موٹر سائیکلوں کے ذریعے یہاں پہنچ ر ہے ہیں۔


دراصل، اترپردیش میں 2022 میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں، ایسے حالات میں کسانوں کی تحریک کے پیش نظر سیاسی پارٹیوں کی سرگرمی ایک الگ اشارہ دے رہی ہے۔ راکیش ٹکیت کو جاٹ کسان رہنما مانا جاتا ہے اور مغربی اتر پردیش میں جاٹ کسانوں کی تعداد بھی زیادہ ہے یعنی کسی پارٹی کی شکست اور فتح کا فیصلہ طے کرنے میں ان کا اہم کردار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹکیت کو حاصل ہونے والی عوام کی بڑے پیمانے پر حمایت کے بعد حکومت کو اپنے ہاتھ پیچھے کھینچنا پڑے اور کسانوں کو غازی پور بارڈر سے نہیں ہٹایا گیا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 30 Jan 2021, 7:50 PM