’یہ بہت ہی سنگین موضوع ہے، کیونکہ ملک میں بی ایل او کی جان جا رہی ہے‘، پارلیمنٹ میں کھڑگے کا اظہارِ تشویش

ملکارجن کھڑگے نے کہا کہ ایس آئی آر پر بحث ملک، عوام اور جمہوریت کے مفاد میں ہے۔ ہم سبھی حکومت کے ساتھ اس موضوع پر بحث کرنے کو تیار ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>ملکارجن کھڑگے / ویڈیو گریب</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

مختلف ریاستوں میں جاری ووٹر لسٹ کی خصوصی گہری نظرثانی (ایس آئی آر) کے خلاف کانگریس سڑک اور پارلیمنٹ دونوں جگہ آواز اٹھاتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ کانگریس کے سرکردہ لیڈران آج پارلیمنٹ احاطہ میں ایس آئی آر کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے نظر آئے، اور پھر راجیہ سبھا میں حزب اختلاف کے قائد ملکارجن کھڑگے نے ایس آئی آر معاملہ پر اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے بحث کرانے کا زوردار مطالبہ رکھا۔

کانگریس صدر ملکارجن کھڑگے نے اس بارے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر اہم جانکاری دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’آج ہم نے رول 267 کے تحت جو نوٹس دیا ہے، ایوان میں اس کا مقصد بتایا جانا چاہیے۔ یہ روایت رہی ہے۔ لیکن اچانک ایسا ہو گیا ہے کہ جو رکن نوٹس دیتے ہیں، نہ ان کا نام پڑھا جاتا ہے اور نہ ہی نوٹس کا موضوع پڑھا جاتا ہے۔‘‘ بعد ازاں ایس آئی آر کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں ’’ہماری اپیل ہے کہ ایس آئی آر پر فوری بحث ہونی چاہیے۔ یہ بہت ہی سنگین موضوع ہے، کیونکہ ملک میں بی ایل او کی جان جا رہی ہے۔‘‘ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’’ایس آئی آر پر بحث ملک، عوام اور جمہوریت کے مفاد میں ہے۔ ہم سبھی حکومت کے ساتھ اس موضوع پر بحث کرنے کو تیار ہیں۔‘‘


اس سے قبل کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے پارلیمنٹ احاطہ میں میڈیا اہلکاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہم آلودگی، ایس آئی آر اور کئی دیگر اہم موضوعات پر ایوان میں بحث کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن حکومت کسی بھی موضوع پر بحث کے لیے راضی نہیں ہے۔‘‘ وہ مزید کہتی ہیں کہ ’’ہم پچھلے پارلیمانی اجلاس سے بحث کا مطالبہ کر رہے ہیں، لیکن حکومت بات کرنے کو راضی ہی نہیں ہے۔ ایوان اس طرح نہیں چلتا ہے۔‘‘

ایس آئی آر معاملہ پر اپنی تشویش ظاہر کرتے ہوئے پرینکا گاندھی نے کہا کہ ’’لوگوں کے ووٹ کاٹے جا رہے ہیں، ’ووٹ چوری‘ ہو رہی ہے، لیکن حکومت چاہتی ہے کہ ہم خاموش رہیں۔ وزیر اعظم تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ موسم کا مزہ لیجیے۔‘‘ انھوں نے پارلیمنٹ میں بحث کی اہمیت ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ایوان جمہوریت کا مندر ہے۔ یہاں بحث ہونی چاہیے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔