’انہوں نے میرا نام پوچھا اور مجھے بے تحاشہ پیٹنے لگے‘، مسلم صحافی کی روداد

مظفر نگر سے تعلق رکھنے والے مسلم صحافی شاہ ویز کی چار لوگوں نے ان کا نام اور پتہ پوچھ کر پٹائی کر دی۔ شاہ ویز نے انھیں بتایا کہ وہ صحافی ہے، اس کے باوجود وہ بے خوف ہو کر لات گھونسے چلاتے رہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آس محمد کیف

نفرت کی زد میں اب مسلم صحافی بھی آ گئے ہیں۔ گزشتہ ہفتہ کے روز مظفر نگر ضلع کے منصور پور تھانہ حلقہ میں نام اور پتہ پوچھ کر ایک صحافی کی پٹائی کرنے کا سنگین معاملہ منظر عام پر آیا۔ صحافی کا نام شاہ ویز خان ہے اور وہ میرٹھ میں ایک مقامی اخبار میں کام کرتا ہے۔ شاہ ویز کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ دل دہلا دینے والا ہے۔ اپنے اوپر ہوئے حملے کا تذکرہ کرتے ہوئے شاہ ویز بتاتے ہیں کہ ’’ہفتہ کی شب تقریباً 8 بجے یہ واقعہ ہوا جب میں میرٹھ سے موٹر سائیکل سے اپنے گھر مظفر نگر جا رہا تھا۔ میرٹھ سے مظفر نگر کی دوری 50 کلو میٹر ہے۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ ’’کھتولی سے آگے نکل کر جب میں ناؤلا گاؤں کے نزدیک پہنچا تو ایک سفید رنگ کی سینٹرو کار نے مجھے ہارن دینا شروع کیا۔ اس میں چار لڑکے سوار تھے۔ میں نے بائیک سڑک کے نیچے اتار لی۔ وہ لوگ کار سے نیچے اترے اور گالی گلوچ کر کے واپس جانے لگے۔ لیکن پھر ان میں سے ایک لڑکا واپس میرے پاس آیا اور مجھ سے میرا نام اور پتہ پوچھا۔ میں نے اپنا نام شاہ ویز اور پتہ کھالا پار بتایا۔ اس کے بعد انھوں نے مذہبی چھینٹا کشی کرتے ہوئے لات گھونسوں سے پیٹنا شروع کر دیا۔‘‘

حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس پٹائی کے دوران شاہ ویز نے چاروں بدمعاشوں کو بتایا کہ وہ صحافی ہے، لیکن اس کے باوجود سبھی نے شاہ ویز کی پٹائی جاری رکھی۔ ظلم کے شکار مسلم صحافی کا کہنا ہے کہ ’’وہ میری پٹائی کرنے کے بعد گالی دیتے ہوئے چلے گئے۔ انھوں نے میرے ساتھ کوئی لوٹ پاٹ نہیں کی۔ چونکہ میرا نام اور پتہ پوچھ کر پٹائی کی گئی، اس لیے میں سمجھ گیا کہ یہ پوری طرح سے ’نفرت‘ کا معاملہ ہے۔ مجھے کوفت کا احساس ہوا، مجھے اندر سے دُکھ کا احساس ہوا۔ میں نے ڈائل 100 کو کال لگایا۔ کئی بار کال کرنے کے بعد ڈائل 100 کی گاڑی آئی اور مجھے تھانے جانے کے لئے صلاح دے کر چلی گئی۔‘‘


ایک صحافی ہونے کے باوجود شاہ ویز کے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ واقعی فکر انگیز ہے۔ لیکن سچ تو یہ ہے کہ شاہ ویز کی پریشانی یہیں پر ختم نہیں ہوئی۔ وہ کہتے ہیں کہ ’’ڈائل 100 کی صلاح کے بعد میں تھانہ گیا لیکن میرا مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔‘‘ شاہ ویز کے مطابق وہ منصور پور تھانہ گئے اور ملزمین کے خلاف مقدمہ درج کرانے کی تحریر دی۔ پولس نے ان کی بات سنی اور پورا تعاون کا بھروسہ بھی دیا۔ اچھی بات یہ ہے کہ گاڑی کا پتہ لگا کر ملزمین کے گاؤں تک بھی پولس پہنچ گئی، لیکن افسوس کہ مقدمہ درج نہیں کیا گیا۔ انھوں نے بتایا کہ ’’پولس افسر نے مجھ سے گزارش کی کہ اپنی تحریر سے ’ہیٹ کرائم‘ کی بات نکال لیں اور مار پیٹ کی تحریری شکایت دیں۔ پولس نے وعدہ بھی کیا کہ وہ غنڈہ گردی کرنے والے لڑکے کا دماغ ٹھیک کر دے گی۔‘‘

شاہ ویز کا کہنا ہے کہ ان کے ساتھ مار پیٹ نام اور پتہ پوچھ کر کی گئی اس لیے اسے جنرل واقعہ نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ اس کے باوجود شاہ ویز نے اپنی تحریر بدل دی اور ’ہیٹ کرائم‘ یعنی مذہبی نفرت پر مبنی جرائم کی بات نکال دی۔ شاہ ویز کے مطابق انھوں نے ایسا اس لیے کیا کیونکہ مظفر نگر میں اس وقت کانوڑ یاترا چل رہی ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ اس وقت مظفر نگر سے کوئی منفی خبر باہر جائے۔


قابل ذکر بات یہ ہے کہ شاہ ویز کے بڑے بھائی شاداب خان ’آوازِ حق‘ نام سے ایک ادارہ چلاتے ہیں اور اس ادارہ کے ذریعہ کانوڑیوں کا کیمپ لگایا جاتا ہے۔ یہ ادارہ ہندو-مسلم خیر سگالی سے متعلق پروگرام کا انعقاد بھی کرتی رہتی ہے۔ شاداب خان کا کہنا ہے کہ ’’مظفر نگر میں 2013 کے فسادات کوہمارے یہاں کے لوگوں نے بھلا دیا ہے اور جاٹ و مسلموں میں اچھے رشتے استوار ہورہے ہیں۔ وہ ساتھ مل کر تجارت ، سیاست اور دوسرے کام کر رہے ہیں۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ ’’مظفر نگر کا ایک نام محبت نگر بھی ہے۔ ہم لوگوں کے دلوں میں کوئی فرق نہیں ڈال سکتا۔ میرے بھائی کے ساتھ ہوا واقعہ ایک بڑی سازش بھی ہو سکتی ہے۔ اس کی گہرائی سے جانچ ہونی چاہیے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 23 Jul 2019, 7:10 PM