حجاب تنازعہ پر سپریم کورٹ میں ہوئی زوردار بحث، آئندہ سماعت کل 11.30 بجے

سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ نے سوال کیا کہ ’’اگر کوئی شلوار قمیض پہننا چاہتا ہے یا لڑکے دھوتی پہننا چاہتے ہیں، تو کیا اس کی بھی اجازت دے دی جائے؟‘‘

سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
سپریم کورٹ، تصویر یو این آئی
user

قومی آوازبیورو

کرناٹک ہائی کورٹ کے ذریعہ تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کے خلاف داخل عرضی پر آج سپریم کورٹ میں زوردار بحث ہوئی۔ اسکول یونیفارم کے ساتھ مسلم طالبات کے ذریعہ حجاب کے استعمال کو لے کر کئی طرح کے سوالات اٹھائے گئے اور اس پر دلیلیں بھی پیش کی گئیں۔ جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس سدھانشو دھولیا کی دو رکنی بنچ نے سماعت کے دوران حجاب پر پابندی کے خلاف عرضی داخل کرنے والے فریق کے وکیل سے کچھ تلخ سوال بھی کیے اور پھر اس معاملے میں آئندہ سماعت 8 ستمبر کو 11.30 بجے کرنے کا اعلان کیا۔

آج ہوئی سماعت کے دوران عرضی دہندگان کی طرف سے اپنی دلیل رکھنے والے وکیل دیودت کامت نے حجاب کو ’اظہارِ رائے کی آزادی‘ کا حصہ قرار دیا۔ اس پر بنچ میں شامل جسٹس گپتا نے کہا کہ ابھی آپ ’رائٹ ٹو ڈریس‘ کی بات کر رہے ہیں، تو بعد میں آپ ’رائٹ ٹو اَن ڈریس‘ کی بھی بات کریں گے، یہ بہت پیچیدہ سوال ہے۔ پھر وہ سوال پوچھتے ہیں کہ ’’اگر کوئی شلوار قمیض پہننا چاہتا ہے یا لڑکے دھوتی پہننا چاہتے ہیں، تو کیا اس کی بھی اجازت دے دی جائے؟‘‘ اس پر دیودت کامت نے کہا کہ ’’ہم یہاں یونیفارم کو چیلنج نہیں کر رہے، اور نہ ہی یہ کہہ رہے ہیں کہ کوئی یونیفارم کی جگہ جینس یا کوئی دوسرا لباس پہن لے۔ میرا سوال یہ ہے کہ اگر کوئی طالبہ اسکول یونیفارم پہنتی ہے، تو کیا حکومت انھیں اپنے سر پر اسکارف باندھنے سے روک سکتی ہے؟ یہاں ایسے حجاب یا جلباب کی بات نہیں ہو رہی ہے جو سر سے پاؤں تک انھیں ڈھانپتا ہو۔‘‘


بنچ کے سامنے اپنی بات رکھتے ہوئے دیودَت کامت نے کچھ غیر ممالک کا بھی تذکرہ کیا جہاں طالبات کو اسکارف پہننے کی اجازت دی گئی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’’امریکہ، برطانیہ اور جنوبی افریقہ کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ برطانیہ کی پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں اسکول میں لڑکیوں کے شلوار قمیض اور اسکارف پہننے کا مسئلہ سامنے آیا تھا، جہاں اس کی اجازت دے دی گئی، لیکن جلباب کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ وہ سر سے پاؤں تک ڈھانپتا ہے۔‘‘ اس پر عدالت نے کہا کہ یہاں بحث اس بات کو لے کر ہو رہی ہے کہ کیا لڑکیوں کو ’مناسب رعایت‘ دی جا سکتی ہے یا نہیں۔ اس پر کامت نے کہا کہ یہ ایک ’بڑا قانونی مسئلہ‘ ہے جس کے لیے اسے پانچ ججوں والی آئینی بنچ کو منتقل کر دینا چاہیے۔

آخر میں جسٹس ہیمنت گپتا نے کہا کہ ’’ہم کل صبح 11.30 بجے سے پہلے متفرق معاملات کو ختم کر لیں گے، اور پھر ہم کل صبح 11.30 بجے اس (حجاب) معاملے پر سماعت شروع کریں گے۔‘‘ اس درمیان ایک مسلم اسکالر نے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کی حمایت میں مداخلت کی کوشش کی، جس پر بنچ نے کہا کہ ’’ہم سب کو اجازت دیں گے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔