جموں: بی جے پی پیٹ رہی ’راشٹرواد‘ کا ڈھنڈورا، لوگوں کی تباہی دیکھنے والا کوئی نہیں

سال 2018 میں پاکستان نے 2936 بار جنگ بندی کی خلاف ورزی کی۔ یعنی اوسطاً روزانہ آٹھ بار ایسا ہوا۔ یہ گزشتہ 15 سال میں سب سے زیادہ ہے۔

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

آشوتوش شرما

نام نہاد ’راشٹرواد‘ اور پاکستان کو دھول چٹا دینے کے نعروں کے شور میں ہندوستان-پاکستان کی افواج کے درمیان روزانہ ہو رہی ’کراس فائرنگ‘ کی تکلیف برداشت کر رہے جموں و کشمیر کے سرحدی علاقے کے لوگوں کے مسائل سننے والا کوئی نہیں ہے۔ نریندر مودی نے پی ایم بننے سے پہلے ان لوگوں سے جو وعدے کیے تھے، انھیں پورا نہیں کیا۔ حال ہی میں کچھ اعلانات بھی کیے گئے ہیں لیکن ایک تو یہ کہ یہ اعلانات کافی دیر سے ہوئے اور دوسرے یہ کہ جو بھی اعلانات ہوئے وہ اونٹ کے منھ میں زیرے کی طرح ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ بی جے پی سے منسلک لوگ بھی مودی حکومت کے رویے سے ناراض ہیں۔

سرحدی علاقوں کے حالات پر نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔ اصولی طور پر 2003 سے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی نافذ ہے۔ لیکن یہ صرف کاغذوں پر ہے۔ ممبئی دہشت گردانہ حملے کے بعد جنگ بندی کی خلاف ورزی لگاتار بڑھتی ہی رہی ہے۔ ابھی گزشتہ سال 2018 میں پاکستان نے 2936 بار جنگ بندی کی خلاف ورزی کی۔ یعنی اوسطاً روزانہ آٹھ بار ایسا ہوا۔ یہ گزشتہ 15 سال میں سب سے زیادہ ہے۔ اس طرح کی فائرنگ میں 61 لوگ ہلاک ہوئے اور 250 سے زائد زخمی بھی ہوئے۔ پلوامہ حملہ کے بعد تو جنگ بندی کی خلاف ورزی کی رفتار کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی ہے۔

ایسے ماحول میں سرحد پر رہنے والے لوگوں میں پیدا دہشت کو سمجھا جا سکتا ہے۔ دو بار رکن پارلیمنٹ اور محبوبہ مفتی سرکار میں بی جے پی سے وزیر رہے چودھری لال سنگھ کا کہنا ہے کہ گزشتہ سالوں میں سرحد پر رہنے والے عام لوگوں کی حالت خطرناک ڈھنگ سے بدتر ہوئی ہے۔ چودھری لال کہتے ہیں کہ آپ سرحدی علاقے کا ایک بار دورہ کر کے دیکھ لیجیے، آپ کو کئی ایسے لوگ ملیں گے جن کے ہاتھ یا پاؤں دھماکوں میں اڑ چکے ہیں۔ کئی ایسے لوگ ہیں جن کے جسم میں بلیٹ یا چھّرے گھسے ہوئے ہیں۔ ہر سال کم از کم تین بار سرحدی علاقے کے لوگوں کو گولیوں اور بموں سے بچنے کے لیے ہجرت کرنی پڑتی ہے۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ان سب سے معاشی طور سے انھیں کیا برداشت کرنا پڑتا ہے۔ ان کے بچوں کا تعلیمی عمل تو کتنی ہی بار متاثر ہوتا ہے۔

ایک فیملی کی مثال دیتے ہوئے چودھری لال سنگھ کہتے ہیں کہ ’’اس فیملی کے پاس زراعت کے لیے بیلوں کا ایک جوڑا تھا۔ گزشتہ سال گولی باری میں وہ مارے گئے۔ ان کے پاس ایک گائے تھی۔ وہ روزانہ تقریباً 12 لیٹر دودھ دیتی تھی۔ اس سے ان کے گھر کا خرچ چلتا تھا۔ ابھی اس سال وہ بھی مر گئی۔ نہ تو حکومت، نہ کوئی دوسرا ایسے لوگوں کی مالی مدد کرتا ہے۔ انتظامیہ ریڈ کراس سے اس طرح کے لوگوں کی مدد کے لیے کہتی ہے۔ ہر کوئی جانتا ہے کہ ریڈ کراس کتنی مدد کرتی ہے۔ 500 سے لے کر 1000 روپے تک... یہ کیسا بکواس ہے؟‘‘

2014 لوک سبھا انتخابات کے دوران بی جے پی نے مقامِ امن کے سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کی ہر فیملی کو 5 مارلا پلاٹس (تقریباً 272 اسکوائر فیٹ) دینے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن بعد میں ایسا کرنے سے منع کر دیا کہ سیکورٹی فورس اس نظریہ سے متفق نہیں ہیں۔ گزشتہ حکومتوں کی یقین دہانی کے باوجود زیادہ تر گاووں میں بنکر اب بھی نہیں ہیں۔ علاقے کے لوگ بتاتے ہیں کہ جو بنکر ہیں بھی، ان میں یا تو کوڑا کچڑا بھرا ہے یا پھر استعمال کیے جانے لائق نہیں ہیں۔

سرحدی لوگوں کے لیے ٹاؤن شپ اور فلیٹس وغیرہ کے وعدے کر دیئے گئے تھے۔ اب چودھری لال سنگھ کہتے ہیں کہ ’’پچھلی حکومتیں سرحدی لوگوں کے لیے کچھ نہیں کر سکیں۔ اگر ہم سرحدی علاقے کے لوگوں کی حمایت میں اقتدار میں آئے تو سب کی باز آبادکاری کریں گے۔ وہ ٹاؤن شپ میں مستقل طور پر رہیں گے۔ ان کے بچے بغیر روک ٹوک پڑھ لکھ سکیں گے۔ خواتین، بچے اور بزرگ فلیٹوں میں محفوظ محسوس کریں گے اور انھیں سبھی بنیادی سہولیات ملیں گی۔‘‘

پونچھ ضلع میں دھار سے رکن اسمبلی رہے نیشنل کانفرنس لیڈر جاوید رانا بھی کہتے ہیں کہ پونچھ ضلع ’وار زون‘ میں بدل گیا ہے۔ وہاں لوگ مارے جا رہے ہیں، زخمی ہو رہے ہیں۔ ہمیں پہلے سے ہی لگ رہا تھا کہ نریندر مودی انتخابات سے پہلے اس طرح کا ماحول تیار کریں گے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔