جموں و کشمیر میں ریزرویشن پر خوب ہو رہا ہنگامہ، پالیسی بدلنے کی تیاری زوروں پر!

ریزرویشن پالیسی میں تبدیلی کے بعد جنرل طبقہ کے طلبہ میں ناراضگی پھیل گئی۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ریزرویشن میں اضافہ سے کھلے مقابلے کے لیے ملازمت اور تعلیمی اداروں میں سیٹیں بہت کم ہو گئی ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>عمر عبداللہ / یو این آئی</p></div>
i
user

قومی آواز بیورو

جموں و کشمیر میں نیشنل کانفرنس (این سی) حکومت کی مدت کار کے ایک سال مکمل ہونے پر ریزرویشن پالیسی کا جائزہ ریاست کی سب سے بڑی بحث بن گئی ہے۔ 2024 میں جب جموں و کشمیر مرکز کے زیر انتظام علاقہ کے طور پر براہ راست دہلی کے انتظامی کنٹرول میں تھا، تب لیفٹیننٹ گورنر نے پہاڑی طبقہ کو 10 فیصد ریزرویشن دینے کی منظوری دی تھی۔ یہ طبقہ کی طویل عرصہ سے زیر التواء مطالبہ تصور کیا جا رہا تھا۔ اس فیصلہ کے بعد ریاست میں ریزرویشن مجموعی طور پر تقریباً 60 فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ سیاسی ماہرین نے اس وقت مانا تھا کہ یہ قدم بی جے پی کے لیے پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات میں سیاسی حمایت جمع کرانے کی کوشش تھی۔

فی الحال جموں و کشمیر میں درج فہرست ذات (ایس سی) کو 8 فیصد، درج فہرست قبائل (گجر-بکروال) کو 10 فیصد، درج فہرست قبائل (پہاڑی) کو 10 فیصد، دیگر پسماندہ طبقات (او بی سی) کو 8 فیصد، لائن آف کنٹرول (ایل او سی) اور بین الاقوامی سرحد سے متصل علاقوں کے شہریوں کے لیے 4 فیصد، پسماندہ علاقوں کے شہریوں کے لیے 10 فیصد اور معاشی طور سے کمزور طبقہ (ای ڈبلیو ایس) کے لیے 10 فیصد ریزرویشن کا انتظام ہے۔ ریزرویشن پالیسی میں تبدیلی کے بعد جنرل طبقہ کے طلبہ میں ناراضگی پھیل گئی۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ ریزرویشن میں اضافہ سے کھلے مقابلے (اوپن میرٹ) کے لیے ملازمت اور تعلیمی اداروں میں سیٹیں بہت کم ہو گئی ہیں۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر کی تقریباً 69 فیصد آبادی جنرل طبقہ سے ہے۔


واضح رہے کہ 2019 میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد 2024 میں پہلی بار اسمبلی انتخاب ہوا۔ نیشنل کانفرنس نے اپنے منشور میں وعدہ کیا تھا کہ وہ ریزرویشن پالیسی کا تجزیہ کرے گی اور کسی بھی ناانصافی یا عدم توازن کو دور کرے گی۔ اکتوبر 2024 میں اقتدار میں آنے کے فوراً بعد وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ کو اس مسئلہ پر بہت زیادہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ حکومت نے کابینہ کی ایک ذیلی کمیٹی تشکیل دی، جس نے 6 ماہ میں اپنی رپورٹ سونپی۔ گزشتہ ہفتہ وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا تھا کہ کابینہ نے رپورٹ کو منظوری دے دی ہے اور اب اسے لیفٹیننٹ منوج سنہا کے پاس حتمی غور و خوض کے لیے بھیجا گیا ہے۔

دسمبر 2024 میں سرینگر میں وزیر اعلیٰ کی رہائش کے باہر زبردست احتجاج ہوا۔ اس میں اپوزیشن لیڈران کے ساتھ نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمنٹ آغا روح اللہ بھی شامل ہوئے، جنہوں نے خود تحریک کی قیادت کی تھی۔ اس واقعہ کے بعد سے روح اللہ اور پارٹی قیادت کے درمیان اختلافات سامنے آئے ہیں۔ اب 11 نومبر کو ہونے والا بڈگام ضمنی اسمبلی انتخاب حکومت کے لیے مقبولیت کا امتحان مانا جا رہا ہے۔ حالانکہ آغا روح اللہ نے واضح کر دیا ہے کہ وہ اس انتخاب میں تشہیری مہم نہیں چلائیں گے۔


روح اللہ نے حال ہی میں جنرل طبقہ کے طلبہ سے ملاقات کی تھی اور کہا تھا کہ ’’بڈگام ضمنی اسمبلی انتخاب پر کوئی بھی فیصلہ لینے سے قبل ریزرویشن کی ذیلی کمیٹی کی رپورٹ عوامی کی جانی چاہیے۔‘‘ وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ نے اس پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری حکومت دباؤ میں کام نہیں کرتی، اس مسئلہ پر عمل کے مطابق ہی قدم اٹھائے جا رہے ہیں۔‘‘ اس درمیان ریزرویشن پالیسی سے متعلق کئی عرضیاں جموں و کشمیر ہائی کورٹ میں داخل کی گئی ہیں، جن پر سماعت جاری ہے۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ یہ مسئلہ آنے والے ماہ میں جموں و کشمیر کی سیاست کا سب سے فیصلہ کن انتخابی موضوع بن سکتا ہے۔