اپنی حالت زار پر اشک بار ہے مغل دور کی زینت المساجد

تاریخی حیثیت کی حامل زینت المساجد عرف گھٹا مسجد دہلی وقف بورڈ کے دفتر سے چند دوری پر واقع ہے لیکن پھر بھی اس مسجد کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔

تصویر محمد تسلیم
تصویر محمد تسلیم
user

محمد تسلیم

نئی دہلی: فصیل بند شہر پرانی دہلی کے دریا گنج کے باہری رنگ روڈ پر واقع زینت المساجد جو گھٹا مسجد کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تاریخی مسجد مغل سلطنت کی طرزِ تعمیر کی اہم یادگار ہے۔ اس خوبصورت مسجد کا ڈھانچہ دلّی کی شاہی جامع مسجد کی طرز پر تیار کیا گیا ہے۔ ہرکس و ناکس کی اس پر پہلی نظر پڑتے ہی شاہی جامع مسجد کی یاد دلاتی ہے۔ اس عالیشان مسجد کو مغل بادشاہ عالمگیر اورنگزیب کی دُختر نیک زینت النساء نے 1707 میں تعمیر کرائی تھی۔ اس مسجد میں ایک دلان 60×150 فٹ، سات محرابیں اور ایک صحن رقبہ دہلی وقف بورڈ کے زیر انتظام 115×195 فٹ پر مشتمل ہے۔

زینت المساجد عرف گھٹا مسجد، تصویر محمد تسلیم
زینت المساجد عرف گھٹا مسجد، تصویر محمد تسلیم

مسجد میں تین بڑے گنبد جو سفید ماربل سے بنے ہوئے ہیں اور اس کی خوبصورتی میں اضافہ کے لئے کالے ماربل کی پٹیاں لگی ہوئی ہیں۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ مسجد خستہ حالی کا شکار ہے۔ مسجد میں لوگوں نے ناجائز قبضے کیے ہوئے ہیں۔ تاہم برسات کے دنوں میں مسجد کی چھت سے پانی ٹپکتا ہے، جس کے سبب دیواروں پر سیلن آچکی ہے۔ اس کے علاوہ مسجد کے پتھر بھی گر نے لگے ہیں۔ مسجد کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ مسجد کہہ رہی ہو کہ جن لوگوں نے مجھے بڑی شان و شوکت سے تعمیر کیا تھا وہ تمہارے ہی اسلاف تھے۔ ایک تم ہو جو میری مرمت کرانے سے بھی قاصر ہو۔

زینت المساجد عرف گھٹا مسجد، تصویر محمد تسلیم
اپنی حالت زار پر اشک بار ہے مغل دور کی زینت المساجد
اپنی حالت زار پر اشک بار ہے مغل دور کی زینت المساجد
اپنی حالت زار پر اشک بار ہے مغل دور کی زینت المساجد
اپنی حالت زار پر اشک بار ہے مغل دور کی زینت المساجد
اپنی حالت زار پر اشک بار ہے مغل دور کی زینت المساجد
اپنی حالت زار پر اشک بار ہے مغل دور کی زینت المساجد
اپنی حالت زار پر اشک بار ہے مغل دور کی زینت المساجد
اپنی حالت زار پر اشک بار ہے مغل دور کی زینت المساجد
اپنی حالت زار پر اشک بار ہے مغل دور کی زینت المساجد
اپنی حالت زار پر اشک بار ہے مغل دور کی زینت المساجد
اپنی حالت زار پر اشک بار ہے مغل دور کی زینت المساجد
اپنی حالت زار پر اشک بار ہے مغل دور کی زینت المساجد
اپنی حالت زار پر اشک بار ہے مغل دور کی زینت المساجد
اپنی حالت زار پر اشک بار ہے مغل دور کی زینت المساجد

مسجد میں نصب تختی کے مطابق دہلی وقف بورڈ نے اس عظیم الشان سلطنت کی امین زینت المسجد کی مرمت 88 -1987 میں کرائی گئی تھی۔ مسجد کے شمالی حصے میں زینت النساء بیگم کا مقبرہ موجود ہے۔ پرانی دہلی میں ضرور یہ مسجد موجود ہے، لیکن اس مسجد میں زیادہ تر مسافر نماز پڑھنے آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مسجد کثیر آبادی سے دور ہے۔ مسجد کی خستہ حالی کی ذمہ دار حکومتوں کے ساتھ ساتھ پرانی دہلی کے عوام بھی ہیں۔ جنہوں نے مسجد کے حق میں آواز اٹھانے کی بجائے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔

اپنے وقت کی یہ مسجد اپنی بدحالی پر بے بس ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ غالباً پانچ سو میٹر کی دوری پر دہلی وقف بورڈ کا دفتر موجود ہے، جہاں سے تمام مساجد کی دیکھ ریکھ کا کام کیا جاتا ہے۔ اپنے وقت کی یہ خوبصورت مسجد خستہ حال ہونے کے باوجود نور پھیلا رہی ہے۔ تاہم مسجد میں نمازیوں پر حادثے کا خطرہ منڈلاتا رہتا ہے۔ کیونکہ مسجد کے میناروں کے پتھر گر رہے ہیں۔


بڑے گنبد پر پودے اُگ آئے ہیں اور انہوں نے اپنی جڑیں بنانا شروع کر دی ہیں، جس سے گنبد میں شگاف پڑنے کا خطرہ ہے۔ مسجد میں صرف عید اور بقرعید کے موقع پر کثیر تعداد میں لوگ نماز پڑھنے آتے ہیں۔ اس بابت قومی آواز کے نمائندہ نے زینت المساجد کا دورہ کر جائزہ لیا۔ مسجد میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلے چند پتھر ٹوٹے ہوئے ملے شاید وہ گزشتہ روز ہوئی بارش سے گرگئے ہیں۔ نام شائع نہ کرنے کی شرط پر مسجد میں رہائش پذیر خاتون نے بتایا کہ مسجد برسوں سے خستہ حالی کا شکار ہے۔ برسوں سے چھتوں سے پانی ٹپکتا ہے جس کی وجہ سے مسجد کی دیواروں پر سیلن آتی جا رہی ہے اور پتھر بھی گر رہے ہیں۔ خاتون نے آگے کہا کہ کچھ لوگ تو مسجد میں اس لیے نماز ادا نہیں کرنے آتے کہیں ان پر پتھر نہ گر جائے۔ خاتون نے بتایا کہ گزشتہ برس مسجد کی چھت پر ٹاٹا آئل کی ٹوکڑیاں لگائی گئی تھی تاکہ پانی نہ ٹپکے لیکن ان کا لگانا بے سود ثابت ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہاں میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد فوٹو اور ویڈیو بنا کر لے جاتے ہیں۔

قبر زینت النساء، تصویر محمد تسلیم
قبر زینت النساء، تصویر محمد تسلیم

حال ہی میں ایک مرتبہ پھر یہ مسجد سرخیوں میں آئی ہے۔ تاہم اپنے اسلاف کی تعمیر کردہ عمارتوں کے تحفظ کے لیے لوگ اس مسجد کی خستہ حالی کی ویڈیو بنا کر وائرل کر رہے ہیں۔ اس لیے مسجد کی چھت پر جانے کا جو گیٹ ہے اس پر تالا لگا دیا گیا ہے تاکہ کوئی ویڈیو نہ بنائے۔ جب امام صاحب کے حجرے سے چابی مانگی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ موذّن کے پاس چابی ہے موزّن کہتا ہے ہمیں پتا نہیں، مسجد میں رہائش پذیر افراد بھی گول مول بات کر بہانہ بنا دیتے ہیں ابھی تو چابی فلاح کے پاس تھی۔


مسجد کی حالات زار پر دہلی وقف بورڈ کے سابق چیئرمین اور کانگریس لیڈر ہارون یوسف نے کہا کہ جو حالت آج زینت المساجد عرف گھٹا مسجد کی ہے اس کی ذمہ دار کیجریوال سرکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ دوسری مساجد بھی کھنڈر ہونے کے دہانے پر پہنچ گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سرکار کی منشا یہ ہے کہ اگر ہم نے مساجد کی از سر نو تعمیر یا تزئین کاری پر کام کیا تو ہندو ووٹ ہم سے ناراض ہو جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ کیجریوال آر ایس ایس کی طرز پر سیاست کرنے میں مشغول ہیں انہیں اقلیتوں کی تہذیب و ثقافت سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔

اپنی حالت زار پر اشک بار ہے مغل دور کی زینت المساجد

ہارون یوسف نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ چاہے فتح پوری مسجد ہو یا کوئی اور زمین ان کو کمرشل بنانے کا کام کیا جا رہا ہے۔ وقف املاک سے ایسا کوئی کام انجام نہیں دیا جا رہا جس سے اقلیتوں کو فائدہ پہنچے۔ انہوں نے کہا کہ دہلی وقف بورڈ کے چیئر مین کو اس طرف توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ اس بابت نمائندہ نے دہلی وقف بورڈ کے موجودہ چیئر مین امانت اللّٰہ خان سے فون پر بات کرنے کی کوشش کی لیکن بات نہیں ہو سکی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


/* */