'دی وائر' کا دعویٰ: ’پولیس نے ’ہیش ویلیو‘ کی کاپی فراہم کیے بغیر الیکٹرانک ڈیوائس قبضہ میں لی، ابتدائی تفتیش کے بغیر مارا گیا چھاپہ‘

دی وائر نے ضبط کی گئی ڈیوائس کی ہیش ویلیو اور ایک کاپی فراہم کرانے کا معاملہ اٹھاتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ اسے محفوظ جگہ پر رکھا جائے۔ ہیش ویلیو میں ڈیوائس کی درستگی اور ڈیٹا کی حفاظت شامل ہوتی ہے

تصویر بشکریہ دی وائر
تصویر بشکریہ دی وائر
user

قومی آوازبیورو

نئی دہلی: نیوز ویب سائٹ ’دی وائر‘ نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے دہلی اور ممبئی میں ویب سائٹ کے ایڈیٹرز کی رہائش گاہوں اور دفاتر کی تلاشی لی اور تمام الیکٹرانک آلات ضبط کر لیے لیکن پولیس نے ان آلات کی ’ہیش ویلیو‘ فراہم نہیں کی ہے۔ اس دوران نیوز انڈیا فاؤنڈیشن ’ڈیجی پب‘ اور ’این ڈبلیو ایم آئی‘ نے اس سلسلے میں جاری کردہ اپنے بیان میں اس طرح کے چھاپوں کے خطرات کی نشاندہی کی ہے۔

خیال رہے کہ دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے کل (بروز پیر) دی وائر کے بانی ایڈیٹرز سدھارتھ وردراجن، ایم کے وینو، سدھارتھ بھاٹیہ، ڈپٹی ایڈیٹر جہانوی سین اور بزنس ہیڈ متھن کیدامبی کی رہائش گاہوں کی تلاشی لی تھی۔ پولیس نے یہ کارروائی بی جے پی آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ کی طرف سے درج کرائی گئی ایف آئی آر کی بنیاد پر کی تھی۔

خیال رہے کہ امیت مالویہ نے ’دی وائر‘ پر شائع ہونے والی کچھ خبروں کو قابل اعتراض قرار دیتے ہوئے ان کی شکایت کی تھی۔ تاہم، دی وائر نے شکایت کے بعد ہی متعلقہ تمام خبروں کو ویب سائٹ سے ہٹا دیا تھا۔ نیوز ویب سائٹ نے دعویٰ کیا تھا کہ ان کے ایک سابق مشیر نے غلط معلومات فراہم کر کے اس طرح کی خبریں تحریر کرائیں لیکن متعدد ماہرین کا خیال ہے کہ نیوز ویب سائٹ کے ایڈیٹرز اور دیگر ذمہ داران نے جان بوجھ کر ایسا کیا۔

دراصل، 'دی وائر' نے بی جے پی اور اس کے آئی ٹی سیل انچارج امیت مالویہ کے خلاف ایک سیریز اسٹوری شائع کی تھی۔ اس اسٹوری میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کہ سوشل میڈیا کمپنیاں واٹس ایپ، فیس بک اور انسٹاگرام کی بنیادی کمپنی ’میٹا‘ نے بی جے پی لیڈر امیت مالویہ کو کچھ مراعات فراہم کی ہیں۔ وہ ان مراعات کا استعمال ان پوسٹوں کو ہٹانے کے لیے کر سکتے تھے جو ان کے خیال میں بی جے پی پر تنقید کرنے والی یا خلاف تھیں۔


دی وائر نے پولیس کی طرف سے ضبط کیے گئے آلات بشمول فون، کمپیوٹر، آئی پیڈ وغیرہ کی ہیش ویلیو کی کاپی فراہم کرنے کا معاملہ اٹھایا اور مطالبہ کیا ہے کہ انہیں محفوظ رکھا جائے۔ کسی بھی الیکٹرانک ڈیوائس کی ہیش ویلیو وہ ہوتی ہے جس میں ڈیوائس کی درستگی اور اس میں محفوظ ڈیٹا کی حفاظت شامل ہوتی ہے۔

پولیس نے دہلی کی بھگت سنگھ مارکٹ میں واقع دی وائر کے دفتر کی تلاشی لی تھی اور اس دوران ویب سائٹ کے وکیل کو ایک طرح سے دفتر سے باہر دھکیل دیا گیا تھا۔ دی وائر نے اپنے بیان میں کہا، "کرائم برانچ کی ٹیم نے اکاؤنٹس ڈیپارٹمنٹ کے زیر استعمال دو کمپیوٹرز کی تمام ہارڈ ڈسک ضبط کر لیں اور ان کی ہیش ویلیو فراہم نہیں کی گئی۔"

دریں اثنا، ڈیجی پب نیوز انڈیا فاؤنڈیشن نے اس کارروائی کو یکطرفہ قرار دیا ہے۔ ڈیجی پب نے اپنے بیان میں کہا کہ نجی شخص کی جانب سے ہتک عزت کے الزام کی بنیاد پر اس طرح کی کارروائی نیک نیتی سے نہیں کی گئی ہے۔ ڈیجی پب کا کہنا ہے کہ اس طرح کے سرچ آپریشنز سے حساس ڈیٹا کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی جا سکتی ہے اور اسے کسی بھی غلط مقصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ڈیجی پب نے کہا، "اگر کوئی صحافی یا میڈیا ادارہ غلط رپورٹ شائع کرتا ہے، تو اسے اس کے ساتھیوں اور سول سوسائٹی کو جوابدہ ہونا چاہیے لیکن میڈیا ہاؤس کے دفتر اور اس کے ایڈیٹرز کی رہائش گاہوں کی پولیس کی طرف سے حکمراں جماعت کے ایک ترجمان کی طرف سے دائر ذاتی ہتک عزت کی شکایت کی بنیاد پر فوری اور من مانی تلاشی بدنیتی کے عزائم کو ظاہر کرتی ہے۔‘‘


بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’کوئی بھی غیرجانبدارانہ انکوائری قانون کی بنیاد پر اور اس کی پاسداری کرتے ہوئے کی جانی چاہیے اور اس طرح کی کارروائی کو ہندوستان میں صحافت کی پہلے سے خراب حالت کو مزید خراب کرنے کا ذریعہ نہیں بننا چاہیے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ میڈیا کی آزادی اور جمہوریت کے عالمی اشاریوں میں مسلسل کمی واقع ہوئی ہے۔ ایسی بہت سی حالیہ مثالیں ہیں جہاں پولیس کی طرف سے مجرمانہ استغاثہ اور ہراساں کیے جانے سے صحافیوں کو ڈرایا اور کام کرنے سے روکا گیا ہے۔‘‘

اسی طرح نیٹ ورک آف ویمن ان میڈیا انڈیا نے بھی دہلی پولیس کی کارروائی کی مذمت کی ہے۔ ایک بیان میں تنظیم نے کہا کہ پولیس کی کارروائی یقینی طور پر ابتدائی تحقیقات کے بغیر کی گئی ہے۔ تنظیم نے کہا کہ حقائق کی تصدیق کیے بغیر اور ادارتی کنونشنز کو نظر انداز کرتے ہوئے رپورٹ شائع کرنے پر دی وائر کو شدید تنقید کا سامنا ہے لیکن پہلی نظر میں ایسا لگتا ہے کہ دی وائر خود اس فراڈ کا شکار ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس‘ نے بھی پولیس کی کارروائی کو انتہائی جابرانہ قرار دیا ہے۔ ایک بیان میں تنظیم نے کہا کہ یہ پولیس کا انتہائی تلخ ردعمل ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔