سابق سی جے آئی دیپک مشرا کی صدارت والے ٹریبیونل کا فیصلہ کاپی پیسٹ، سنگا پور کی عدالت نے کیا منسوخ
سنگا پور کی عدالت کا کہنا ہے کہ جانچ میں پتہ چلا ہے کہ فیصلے میں کُل 451 پیراگراف لیے گئے تھے تھے، جن میں سے 212 پیراگراف سابقہ فیصلوں سے اٹھائے گئے ہیں۔

سابق چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا (فائل)، تصویر سوشل میڈیا
سابق چیف جسٹس آف انڈیا دیپک مشرا کی صدارت والی بنچ کے ایک فیصلے کے سلسلے میں چونکانے والی خبر سامنے آئی ہے۔ دراصل دیپک مشرا کی صدارت والی بنچ نے ایک معاملے میں ثالثی کی تھی اور فیصلہ سنایا تھا۔ اب اس فیصلے کو سنگاپور میں خارج کر دیا گیا ہے اور وہاں کی سپریم کورٹ نے بھی اسے صحیح مانا ہے۔
’لائیو ہندوستان‘ کی خبر کے مطابق عدالت عظمیٰ نے اپنی سماعت میں کہا کہ جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی بنچ کا فیصلہ خارج کرنا صحیح ہے کیونکہ اس کا مواد بڑے پیمانے پر کاپی پیسٹ تھا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ جانچ میں پتہ چلا ہے کہ فیصلے میں کُل 451 پیراگراف لیے گئے تھے تھے، جن میں سے 212 پیراگراف سابقہ فیصلوں سے اٹھائے گئے ہیں۔ یہ فیصلے جسٹس دیپک مشرا کی بنچ نے ہی سنائے تھے اور ان دو معاملوں میں لکھی گئی اشیاء کو ہی یہاں کاپی پیسٹ کیا گیا۔
اس سے پہلے سنگاپور انٹرنیشنل کمرشیل کورٹ نے بھی ایسا ہی حکم دیا تھا، جو ہائی کورٹ کا ہی حصہ ہے۔ اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی گئی تھی لیکن اس نے بھی فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔ چیف جسٹس سندریش مینن اور جسٹس اسٹیون چونگ کی بنچ نے کہا، ’ایسا ہی فیصلہ دیگر معاملوں میں بھی دیا گیا تھا۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ پہلے دیئے گئے فیصلوں کی اشیآء اٹھا کر 212 پیرے ڈالے گئے ہیں جبکہ کُل فیصلہ ہی 451 پیراگراف میں ہے۔ اس طرح 47 فیصدی اشیاء کاپی پیسٹ والی ہے۔ اس کا بڑا اثر پڑ سکتا ہے۔ یہ معاملہ اسپیشل پرپج ویکل منیجنگ فرائٹ کوریڈور اور تین دیگر کمپنیوں کے گروپ کے درمیان تنازعہ کو لے کر تھا۔
یہ معاملہ اس بات کو لے کر تھا کہ 2017 میں حکومت ہند نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، جس میں کم سے کم تنخواہ بڑھانے کا فیصلہ لیا تھا۔ یہ تنخواہ تین کمپنیوں کو دینا ہوتا۔ اس پر کمپنیوں نے اعتراض ظاہر کیا تو معاملہ عدالت میں پہنچ گیا۔ ہائی کورٹ میں سماعت کے بعد اس مقدمے کو ٹریبیونل کے حوالے کیا گیا۔ اس ٹریبیونل بنچ کے مکھیا چیف جسٹس دیپک مشرا تھے۔ ان کے علاوہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے جج جسٹس کرشن کمار لوہاٹی بھی اس کا حصہ تھے۔ ان کے علاوہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے چیف جسٹس گیتا متل بھی اس میں شامل تھے۔ اس بنچ نے تین کمپنیوں کے کنسورٹیم کے حق میں فیصلہ سنایا تھا۔ لیکن ٹریبیونل کے اس حکم کو سنگاپور ہائی کورٹ میں یہ کہتے ہوئے چیلنج دیا گیا کہ پہلے کے دو فیصلوں سے اس کے ایک حصے کو کاپی کیا گیا ہے۔
پہلے کے جن دو فیصلوں سے مواد کو کاپی کرنے کا الزام لگا ہے، انہیں بھی دیپک مشرا کی صدارت والے ٹریبیونل بنچ نے ہی دیا تھا۔ حالانکہ ان بنچوں میں دو دیگر جج شامل نہیں تھے، جو اس کا حصہ بنے۔ اس پر ہائی کورٹ کا کہنا تھا کہ یہ تو قدرتی انصاف کے نظام کی خلاف ورزی ہے۔ بنچ نے کہا کہ ایسا کرکے تو ٹریبیونل نے ایک طرح سے پورے معاملے کو سمجھا ہی نہیں ہے۔ دونوں ہی فریقوں کو سمجھنے کے بعد یہ فیصلہ دیا جاتا تو پھر اس طرح بڑا حصہ پرانے کیسوں کا کاپی پیسٹ نہیں ہوتا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔