بھگوا پارٹی کی سوچ ہندوستان کی تباہی کا پیش خیمہ!... نواب علی اختر

ہندوستان کا مسلمان ہمیشہ نام نہاد سیکولر جماعتوں کی سیاست کا شکار رہا ہے۔ ’بھیڑیے‘ کا خوف دلاکر اس کے ووٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

پرینکا گاندھی اور یوگی آدتیہ ناتھ
پرینکا گاندھی اور یوگی آدتیہ ناتھ
user

نواب علی اختر

اترپردیش سمیت دیگر چار ریاستوں میں انتخابی گہما گہمی اپنے شباب پر پہنچ چکی ہے۔ پانچ ریاستوں کے انتخابی عمل میں تمام تر سیاسی توجہات اترپردیش کے انتخابات پر مرکوز ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اترپردیش ملک کی ایسی بڑی ریاست ہے جس کی سیاسی حکمت عملی ہندوستان کی سیاست کی جہت کو متعین کرتی ہے۔ اترپردیش کے لیے کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کے اقتدار کا راستہ اسی ریاست سے ہوکر گزرتا ہے، کیونکہ اترپردیش ہندوستان کی سب سے بڑی ریاست ہے۔ سب سے زیادہ اسمبلی اور لوک سبھا کی سیٹیں بھی اسی ریاست میں ہیں۔ ظاہر ہے جو سیاسی جماعت اترپردیش میں برسر اقتدار ہوتی ہے وہ ملک کی سیاست کا رخ بدلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

گزشتہ پانچ سالوں میں یوگی آدتیہ ناتھ نے جس طرح اترپردیش میں حکومت کی ہے اس کی نظیر نہیں ملتی۔ حکومت ہر محاذ پر ناکامی کا شکار رہی باوجود اس کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ بڑی بے حیائی کے ساتھ اپنی پیٹھ آپ تھپتھپاتے رہے۔ انتخابی تاریخوں کا اعلان ہوتے ہی جس طرح بی جے پی خیمے میں ہلچل مچی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پارٹی کارکنان یوگی آدتیہ ناتھ سے خوش نہیں ہیں۔ یوگی کی سیاست کا سارا انحصار ’ٹھوک دو‘ اور ’نفرت پھیلاﺅ راج کرو‘ کے فارمولے پر ہے، اس لیے ان کے پاس ریاست کی ترقی کے لیے کوئی مضبوط لائحہ عمل نہیں ہے۔ ترقیاتی ایجنڈے کے لیے وژن کا ہونا بہت ضروری ہے جو اترپردیش حکومت کے پاس نہیں ہے۔ اترپردیش کی بڑی بدقسمتی کہی جائے گی کہ یہاں کی سیاست ہمیشہ ذات پات اور مذہب کے ارد گرد گھومتی رہی ہے۔


اترپردیش ملک کی تنہا ریاست ہے جہاں ترقیاتی ایجنڈے اور فلاحی امور کی بنیاد پر سیاست نہیں ہوتی۔ زیادہ تر سیاسی پارٹیاں ذات پات اور مذہبی مسائل کو بنیاد بناکر اپنا مفاد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ خاص طور پر بی جے پی جس کی سیاست کا سارا دارومدار مذہب اور ذات پات پر ٹکا ہوا ہے، ایک بار پھر 80 بنام 20 فیصد کے مقابلہ کا نعرہ دے چکی ہے۔ بی جے پی کی حکمت عملی برٹش سامراج کی ذہنیت ’بانٹو اور راج کرو‘ سے الگ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی رہنماﺅں کا سارا زور ’تقسیم کی سیاست‘ پر صرف ہوتا ہے۔ 80 بنام 20 کے مقابلے کا نعرہ دے کر یوگی نے صاف کر دیا کہ ان کے پاس ترقیاتی ایجنڈے پر بات کرنے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ وہ ہمیشہ کی طرح نفرت اور تقسیم کی سیاست کا سہارا لے کر اقتدار میں آنے کی کوشش کریں گے۔ بھگوا پارٹی کی یہی سوچ ہندوستان کی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ریاست میں قانون اور قواعد پر عمل کروانے کی ذمہ داری رکھنے والے وزیراعلیٰ خود اس طرح کے تبصرے کرتے ہوئے قوانین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں۔ وہ ایک طرح سے یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہاں مقابلہ ہندو۔ مسلمان کے درمیان ہے۔ جبکہ یہ جمہوری عمل ہے اور انتخابات کے ذریعہ ایک نئی حکومت کا انتخاب کیا جائے گا۔ ایسے میں مذہب کے نام پر منافرت پھیلاتے ہوئے آدتیہ ناتھ اپنی پراگندہ ذہنیت کو ایک بار پھر سب پر آشکار کر رہے ہیں۔ آدتیہ ناتھ کے ریمارکس کے علاوہ خود ملک کے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بھی اسی طرح کے ریمارکس کرتے ہوئے فرقہ وارانہ ماحول کو بگاڑتے ہوئے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوششوں کے لئے مشہور ہیں۔


ان تمام قائدین کے بیانات اور ریمارکس کے ذریعہ یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ان کے لیے سیاسی فائدہ کا حصول ہی سب کچھ ہے۔ وہ اپنے اقتدارکے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اور اس خواہش میں انہیں قوانین و اصولوں اور ضوابط کی کوئی فکر لاحق نہیں ہے۔ وہ اپنی اقتدار کی ہوس کی تکمیل کے لیے قوانین کی کسی بھی حد تک دھجیاں اڑا سکتے ہیں۔ عوام کے لیے اپنے کردار سے مثال پیش کرنے کی ان تمام قائدین پر ذمہ داری ہے اور یہ لوگ اقتدار حاصل ہونے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے بعد عوام سے قوانین کی پابندی کی امید کرتے ہیں اور انہیں تلقین بھی کرتے ہیں لیکن وہ خود تمام قوانین اور اصولوں کی دھجیاں اڑنے سے معمولی سا گریز بھی نہیں کرتے اور انہیں اس پر کوئی افسوس بھی نہیں ہوتا۔

سیاسی جماعتوں اور قائدین اور خاص طور پر برسر اقتدار جماعتوں کے قائدین کی جانب سے قوانین اور انتخابی ضابطوں کی خلاف ورزی کے معاملات میں الیکشن کمیشن بھی اکثر و بیشتر بے بس نظر آتا ہے۔ وہ بھی شکایات کا جائزہ لینے میں مصروف رہتا ہے کہ انتخابات کا عمل ہی ختم ہو جاتا ہے۔ اگر کہیں سزائیں بھی دی جاتی ہیں تو دو تا تین دن مہم سے روک کر سزا کی خانہ پری کر دی جاتی ہے۔ یہ سب کچھ محض دکھاوا ہے۔ الیکشن کمیشن کو ایسی کوششوں کا سخت نوٹ لیتے ہوئے انہیں ساری مہم سے اور خود انتخابات میں حصہ لینے سے بائیکاٹ کیا جانا چاہئے۔ اسی وقت انتخابات کا عمل شفاف اور غیر جانبدارانہ ہوسکتا ہے۔ ورنہ کچھ گوشے اسے مذاق بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔


بی جے پی اچھی طرح جانتی ہے کہ اترپردیش کے عوام کو ترقی کے بجائے مذہب اور طبقاتی نظام کی ضرورت ہے اس لیے وہ مذہبی منافرت اور طبقاتی نظام کے فروغ کے لیے کام کرتی ہے۔ ان کے پاس تمام ہندوﺅں کے لیے ترقیاتی ایجنڈہ موجود نہیں ہے تو پھر دیگر مذاہب اور قوموں کے لیے وہ کیا کرسکتے ہیں؟ مسلمانوں کے لیے تو ان کے پاس نفرت اور ’ٹھوک دو‘ کے علاوہ کچھ ہے ہی نہیں۔ یہ الگ بات کہ آر ایس ایس، مسلم راشٹریہ منچ کے ذریعہ وہ مسلمانوں کے درمیان نفوذ کی کوشش کر رہی ہے مگر یہ کوشش صرف مفاد پرستوں اور دلالوں تک سمٹ کر رہ گئی ہے۔ ہندوستان کا مسلمان ہمیشہ نام نہاد سیکولر جماعتوں کی سیاست کا شکار رہا ہے۔ ’بھیڑیے‘ کا خوف دلاکر اس کے ووٹ پر قبضہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

سیاسی پارٹیوں کے ذریعہ مسلمانوں کا جذباتی، اقتصادی اور فکری استحصال عام بات ہوگئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہندوستان کے مسلمان کے پاس کوئی بہتر متبادل نہیں ہے۔ مسلمان کو اپنا سیاسی لائحہ عمل بدلنے کی ضرورت ہے۔ وہ کسی ایک جماعت یا ایک سیاسی رہنما کے ساتھ بندھ کر نہیں رہ سکتے۔ ضروری ہے کہ وہ اپنی سیاسی و سماجی طاقت کا مظاہرہ کریں۔ اس کے لیے نئی حکمت عملی تیار کی جائے اور ہر سیکولر جماعت کو یہ پیغام دیں کہ وہ اپنے حق اور مفاد کی سیاست میں یقین رکھتے ہیں ’بھیڑیے‘ کے خوف کی سیاست میں نہیں۔ مسلمانوں نے جتنی سیکولر کہے جانے والی پارٹیوں پر بھروسہ کیا اس کے نتائج کیا ہوئے؟ دہلی میں پہلی بار کیجریوال کو اقتدار کی کرسی تک پہنچانے میں مسلمانوں نے اہم کردار ادا کیا، مگر کیجریوال بھی زعفرانی سیاست کا ایک مہرہ ثابت ہوئے۔


دہلی فسادات کے موقع پر عام آدمی پارٹی کی دو رخی سیاست نے کیجریوال کے چہرہ پر پڑے ہوئے سیکولرازم کے نقاب کو الٹ دیا۔ دیوالی کے موقع پردہلی میں ایودھیا کی طرز پر رام مندر کی نقل تیار کرائی گئی، جہاں وزیر اعلیٰ کیجریوال نے دیوالی کے روز پوجا ارچنا کرکے مسلمانوں کے زخموں پر نمک پاشی کی۔ دہلی حکومت کی طرف سے اس کی خوب تشہیر کی گئی تاکہ کیجریوال کو بھی ’ہندتووا‘ سیاست کا مبلغ ثابت کیا جاسکے۔ ظاہر ہے کیجریوال ’انّا آندولن‘ سے نکلے ہوئے نیتا ہیں، اس لیے انہیں زعفرانی ایجنڈے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ مایاوتی کی تو بات ہی نہیں ہے کیونکہ ان کی سیاسی بساط اترپردیش میں سمٹ چکی ہے اس لیے ان سے مذمتی بیان سے زیادہ کچھ توقع بھی نہیں کی جاسکتی۔

گزشتہ پانچ سالوں میں سماج وادی پارٹی سے زیادہ کانگریس اترپردیش میں متحرک رہی ہے۔ راہل گاندھی اور ان کی بہن پرینکا گاندھی ہر محاذ پر نفرت کی سیاست کے خلاف کھڑی نظر آئیں۔ ہاتھرس سے لے کر لکھیم پور سانحہ تک ہر جگہ پرینکا نے ظلم و ناانصافی کے خلاف بے مثال زمینی جدوجہد کی جس کا نتیجہ ہے کہ آج ملک کی سب سے بڑی ریاست میں کانگریس کارکنان میں ایک نیا جوش اور جذبہ محسوس کیا جا رہا ہے۔ ذات پات، فرقہ پرستی اور مذہب کی سیاست سے اوپر اٹھ کرعوام کی ترقی، خواتین کی حفاظت اور انہیں بااختیار بنانا، ناانصافی اور استحصال کے شکار مرد اور خواتین کو امیدوار بنا کر کانگریس نے ایک نئی مثال قائم کی ہے جس کی عوامی حمایت میں اضافہ ہونے کا اشارہ کیا جا رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔