’ایس آئی آر‘ پر سپریم کورٹ میں کل پھر ہوگی سماعت، جانیں آج کیا کچھ ہوا؟
سنگھوی نے کہا کہ ’’ہمارے پاس بہار سے بہت باصلاحیت سائنسداں ہیں، لیکن یہ ایک خاص طبقہ تک ہی محدود ہے۔ بہار میں دیہی اور سیلاب زدہ علاقے ہیں، ان کے لیے 11 دستاویزات کی فہرست بنانے کا کیا مطلب ہے۔‘‘

بہار میں ووٹر لسٹ کی خصوصی نظر ثانی (ایس آئی آر) پر سپریم کورٹ میں مسلسل دوسرے روز سماعت ہوئی۔ کل (14 اگست) ایک بار پھر اس معاملے میں آگے کی سماعت ہوگی۔ دراصل بہار میں الیکشن کمیشن کے ذریعہ جاری ایس آئی آر کے عمل کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے۔ جسٹس سوریہ کانت کی صدارت والی بنچ اپوزیشن کی عرضیوں پر سماعت کر رہی ہے۔ آج ہوئی سماعت میں عدالت نے کہا کہ ’’ایس آئی آر کے اصول سخت نہیں ہیں، کیونکہ کوئی ایک دستاویز ہی ضروری ہے۔‘‘ دوسری جانب اپوزیشن کی جانب سے سینئر وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ ’’ایس آئی آر پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن یہ انتخاب سے عین قبل کیوں؟‘‘ جسٹس سوریہ کانت نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے پریس نوٹ میں ایس آئی آر کے پورے عمل کو واضح کیا ہے۔
ابھیشیک منو سنگھوی نے عدالت عظمیٰ میں جھارکھنڈ کے چیف ایگزیکٹو آفیسر کے ذریعہ بتاریخ 3 دسمبر 2024 کو جاری حلف نامہ پڑھتے ہوئے کہا کہ یہ تذکرہ کرنا مناسب ہے کہ جن معاملوں میں شہریت کو لے کر شبہ ہے، وہاں ای آر او فیصلہ لینے سے قبل وزارت داخلہ سمیت متعلقہ حکام سے مشورہ کر سکتا ہے۔ اگر ای آر او اب بھی فیصلہ لینے کی حالت میں نہیں ہے تو اسے پہلے لال بابو معاملہ میں سپریم کورٹ کے گائیڈلائنز کا حوالہ دینا چاہیے۔
بحث کے دوران جسٹس سوریہ کانت نے کہا کہ قانون میں ایسا کوئی روک نہیں کہ 50 سال کا کوئی شخص سرٹیفکیٹ حاصل کرے۔ جواب میں سنگھوی نے کہا کہ جولائی میں اس طرح کے مشق کے ساتھ آنے کی کیا ضرورت ہے؟ جب جسٹس سوریہ کانت نے کہا کہ بہار میں یہ کافی حوصلہ افزا ہے کہ 36 لاکھ لوگوں کے پاس پاسپورٹ ہے، تو سنگھوی نے جواباً کہا ’’تقریباً ایک فیصد ووٹروں کے پاس پاسپورٹ ہوگا، یہ مشق خواتین کے لیے مشکل ہے۔‘‘ اس پر جسٹس سوریہ کانت نے کہا کہ بہار کو اس طرح پیش نہ کریں۔ آئی اے ایس کے معاملہ میں سب سے زیادہ نمائندگی اسی ریاست کی ہے، ایسا تب تک نہیں ہو سکتا جب تک نوجوان نسل تعلیم کے تئیں پُرعزم نہ ہوں۔ سنگھوی نے کہا کہ ہمارے پاس وہاں سے بہت باصلاحیت سائنسداں ہیں، لیکن یہ ایک خاص طبقہ کے لوگوں تک ہی محدود ہے۔ بہار میں دیہی اور سیلاب زدہ علاقے ہیں، غربت زدہ علاقے ہیں، ان کے لیے 11 دستاویزات کی فہرست بنانے کا کیا مطلب ہے؟
جسٹس سوریہ کانت نے پوچھا کہ یہ 13.89 کروڑ پر مبنی اعداد و شمار کیا ہیں؟ جواب میں سنگھوی نے کہا کہ یہ ضرور غلط ہوگا، یہ بہار کی پوری آبادی سے زیادہ ہے۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ ووٹر لسٹ میں مختصر ترمیم کے مقصد سے جن دستاویزوں پر غور کیا گیا تھا، اس کے مقابلہ میں ایس آئی آر میں ووٹرز سے مطلوبہ دستاویزات کی تعداد 11 ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ ووٹر فرینڈلی ہے۔ عرضی گزاروں نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ ایس آئی آر میں دستاویزوں کی تعداد زیادہ ہو سکتی ہے، لیکن بہار میں ان کی کوریج بہت کم ہے اور اس لیے انہیں باہر کیا جا رہا ہے۔
جسٹس سوریہ کانت نے ایک سوال یہ بھی پوچھا کہ آئٹم نمبر 2 پر آپ کی کیا رائے ہے؟ اس میں کسی بھی شناختی کارڈ کے بارے میں لکھا ہے۔ سنگھوی نے کہا کہ ای پی آئی سی کارڈ سب سے بہتر شناختی کارڈ ہے اور دوسرا آدھار ہے۔ اس سے بہتر کارڈ اور کیا ہو سکتا ہے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن کا جواب کہتا ہے، ’پتہ نہیں چل سکتا‘۔ سنگھوی نے کہا کہ میں اس سے متفق نہیں ہوں، یہ باہر کیا ہوا ہے۔ میں سمجھاتا ہوں کیوں؟ دونوں دستاویزوں کی فہرست کا موازنہ کرتے ہیں:
پہلا آدھار باہر ہے۔ اسے خارج کر دیا گیا ہے۔ یہ سب سے زیادہ کوریج والا دستاویز ہے۔
پانی، بجلی، گیس کنیکشن۔ نہیں ہے۔
ہندوستانی پاسپورٹ۔ 2-1 فیصد سے بھی کم کوریج کو برقرار رکھا گیا ہے۔
تعداد کے لحاظ سے وہ متاثر کرنے کے لیے اسے برقرار رکھ رہے ہیں، لیکن یہ سب سے کم کوریج والا دستاویز ہے۔ دیگر تمام دستاویزات کی کوریج 3-2-0 فیصد کے درمیان ہے۔ سنگھوی نے کہا کہ اگر کسی کے پاس زمین نہیں ہے تو دستاویز 5، 6، 7 باہر ہیں۔ مجھے حیرت ہے کہ بہار میں کتنے لوگ اس کے اہل ہوں گے؟ بہار میں رہائش کا سرٹیفکیٹ موجود نہیں ہے، جبکہ فارم 6 کے لیے صرف سیلف ڈکلریشن کی ضرورت ہوتی ہے۔
سنگھوی نے کہا کہ ایس آئی آر پر کوئی اعتراض نہیں، لیکن انتخاب سے کچھ ماہ پہلے کیوں؟ اسے بعد میں کرائیں، پورا سال لگ جائے گا۔ الیکشن کمیشن 11 دستاویزوں کا حوالہ دے کر متاثر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ 3 کے ذرائع ان کو معلوم نہیں بقیہ 2 انتہائی مشکوک اور غیر متعلق ہیں۔ یہ 11 فہرست تاش کے پتوں کی طرح ہیں۔ یہ آدھار، پانی اور بجلی کے بل کی جگہ لے لیتے ہیں۔
جسٹس باغچی نے کہا کہ ان کے حلف نامے کا سیکشن ایف بھی دیکھیں، جو آدھار کو شامل نہ کرنے کے سلسلے میں ہے۔ جسٹس باغچی نے کہا کہ وہ (ای سی آئی) شناختی دستاویزات کی تعداد کو بڑھا رہے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کی دلیل شاید آدھار پر ہے، لیکن پرائمری ریویزن سے ایس آئی آر تک کے بعد دستاویزات کی توسیع حقیقت میں ووٹر فرینڈلی ہے اور انھیں ہٹاتا نہیں ہے۔ یہ انہیں مزید متبادل فراہم کرتا ہے، 7 کے بجائے 11 دستاویزات ہیں۔ ایک دلیل یہ پیش کی گئی تھی کہ کیا ایمونیرشن فارم کو قانونی شکل کے خلاف بنایا جا سکتا ہے۔ اگر فارم قانونی شکل اختیار کر لیتا ہے تو کیا یہ خلاف ورزی میں ہوگا یا زیادہ جامع تعمیل میں ہوگا؟ جسٹس سوریہ کانت نے کہا کہ اگر کوئی کہتا ہے کہ تمام 11 دستاویزات کی ضرورت ہے تو یہ ووٹنگ کے مخالف ہوگا۔ لیکن یہ کہتا ہے کہ 11 معتبر دستاویزات میں سے کوئی بھی دیں۔
سنگھوی نے کہا کہ ایک وضاحت کروں گا، میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ انہیں بنگال کو کم وقت دینا چاہیے۔ میں صرف یہ کہہ رہا ہوں کہ انہیں بہار کو مناسب وقت دینا چاہیے۔ الیکشن کمیشن نے تسلیم کیا ہے کہ 65 لاکھ ووٹرز فہرست سے باہر ہیں۔ ان لوگوں کو بغیر کسی معلومات، دستاویزات یا فارم کے فہرست سے باہر کر دیا گیا۔ ان میں وہ لوگ شامل ہیں جو مر چکے ہیں، ہجرت کر چکے ہیں اور وہ لوگ جو 2 یا 2 سے زیادہ ریاستوں میں رجسٹرڈ ہیں۔ اس طرح سے کوئی بھی عمل کہیں بھی نہیں کیا جاتا۔ وہ دستاویز نہیں مانگتے۔ عدم شمولیت ایک خوشگوار لفظ ہے، یہ اصل میں نام ہٹانا ہے۔
سنگھوی نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے نام ہٹانے کے حق کو کوئی چیلنج نہیں کر رہا ہے۔ لیکن اسے اپنے طریقہ کار پر عمل کرنا ہوگا۔ انتخابی سال میں کسی کو بھی اپنے طور پر فہرست سے نہیں نکالا جائے گا، یہ خصوصی حالات میں منظوری کے بعد کیا جا سکتا ہے۔ پریس نوٹ دیکھیں - 2004 میں بھی یہی ہوا تھا۔ اروناچل اور مہاراشٹر کو اس سے چھوٹ دی گئی تھی، جبکہ دوسری ریاستوں کے لیے یہ جاری رہا، کیونکہ وہاں انتخابات قریب تھے۔ حیرت ہوتی ہے جب الیکشن کمیشن اپنے ہی قوانین پر عمل نہیں کر رہا۔ اتنے اہم کام کے لیے وقت کی کمی نہیں ہو سکتی۔ ہم التوا کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
دوسری جانب سپریم کورٹ میں کلیان بنرجی پیش ہوئے اور کہا کہ مغربی بنگال میں ایس آئی آر کے عمل کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ جسٹس سوریہ کانت نے کہا ابھی ہم صرف بہار والے پر غور کر رہے ہیں۔ کلیان بنرجی نے کہا کہ مغربی بنگال میں 3 دنوں کے اندر بڑی تعداد میں ووٹرس کے نام ہٹا دیے گئے ہیں۔ کل 3 خواتین ہائی کورٹ کے سامنے خودکشی کرنا چاہتی تھیں۔ جسٹس سوریہ کانت نے کہا کہ ہمارے لیے انفرادی دعووں کی تحقیقات کرنا مشکل ہے۔ ہم وسیع اصولوں پر غور کریں گے، جو مقامی حالات کے تحت تمام ریاستوں کے لیے یکساں ہوں گے۔ جب بنگال کی باری آئے گی تو ہم آپ کی بات سنیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔