سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر میں اسمبلی سیٹوں کی حد بندی کو درست ٹھہرایا، طریقہ کار کو چیلنج کرنے والی عرضی خارج

سری نگر کے رہنے والے حاجی عبدالغنی خان اور محمد ایوب مٹو نے جموں و کشمیر میں اسمبلی سیٹوں کی حد بندی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا تھا کہ حد بندی میں درست طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ / آئی اے این ایس
سپریم کورٹ / آئی اے این ایس
user

قومی آوازبیورو

جموں و کشمیر میں اسمبلی سیٹوں کی حد بندی کے طریقہ کار کو چیلنج کرنے والی عرضی آج سپریم کورٹ نے خارج کر دی۔ سپریم کورٹ نے حد بندی کے عمل کو درست ٹھہرایا، اور ساتھ ہی کہا کہ دفعہ 370 کے غیر فعال ہونے کے بعد جموں و کشمیر اور لداخ کی تشکیل نو کا مسئلہ اس کے پاس زیر التوا ہے۔ اس سماعت میں عدالت عظمیٰ نے اس پہلو پر غور نہیں کیا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ سری نگر کے رہنے والے حاجی عبدالغنی خان اور محمد ایوب مٹو نے جموں و کشمیر میں اسمبلی سیٹوں کی حد بندی پر سوال اٹھایا تھا۔ انھوں نے عدالت عظمیٰ میں داخل اپنی عرضیوں میں کہا تھا کہ حد بندی میں درست طریقہ کار پر عمل نہیں کیا گیا ہے۔ حالانکہ مرکزی حکومت، جموں و کشمیر انتظامیہ اور انتخابی کمیشن نے اس دلیل کو غلط بتایا تھا۔ 13 مئی 2022 کو سپریم کورٹ نے اس معاملے پر نوٹس جاری کیا تھا۔ اس وقت بھی عدالت نے واضح کیا تھا کہ سماعت صرف حد بندی معاملے کو لے کر ہوگی۔ جموں و کشمیر میں دفعہ 370 ہٹانے سے جڑے معاملے پر غور نہیں کیا جائے گا۔


واضح رہے کہ گزشتہ سال یکم دسمبر کو جسٹس سنجے کشن کول اور ابھے ایس اوکا کی بنچ نے حد بندی معاملے پر فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔ سماعت کے دوران عرضی دہندہ نے دلیل دی تھی کہ جموں و کشمیر میں اسمبلی سیٹوں کی حد بندی کے لیے سپریم کورٹ کی سابق جج جسٹس رنجنا دیسائی کی صدارت میں کمیشن کی تشکیل آئینی التزامات کے حساب سے درست نہیں ہے۔ عرضی دہندہ نے کہا تھا کہ حد بندی میں اسمبلی حلقوں کی سرحد بدلی گئی ہے۔ اس میں نئے علاقوں کو شامل کیا گیا ہے۔ سیٹوں کی تعداد 107 سے بڑھا کر 114 کر دی گئی ہے، جس میں پاکستان کے قبضے والے کشمیر کی بھی 24 سیٹیں شامل ہیں۔ یہ جموں و کشمیر از سر نو تشکیل ایکٹ کی دفعہ 63 کے مطابق نہیں ہے۔

اس تعلق سے مرکزی حکومت کی طرف سے جواب دیتے ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کہا تھا کہ آئین کی دفعہ 2، 3 اور 4 کے تحت پارلیمنٹ کو ملک میں نئی ریاست یا انتظامی یونٹ کی تشکیل اور اس کے انتظام سے جڑے قانون بنانے کا اختیار دیا گیا ہے۔ اسی کے تحت پہلے بھی حدی بندی کمیشن کی تشکیل کی جاتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ عرضی دہندہ کا یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کہ حد بندی صرف جموں و کشمیر میں ہی نافذ کی گئی ہے۔ اسے آسام، اروناچل پردیش، منی پور اور ناگالینڈ کے لیے بھی شروع کی گئی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔